غزل:کِسی کی جُستجو ہے اَور مَیں ہُوں

یاران محفل: تسلیمات !
نئے انداز کی غزلیں آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ پرانی طرز کی غزل کہنے والے اب کم رہ گئے ہیں اور روز بروز کم تر ہوتے جاتے ہیں۔ زمانے اور حالات کا یہی تقاضہ معلوم ہوتا ہے۔ منھ کا مزا بدلنے کی خاطر چھوٹی بحر میں ایک پرانی طرز کی غزل لے کر حاضر ہورہا ہوں۔ چھوٹی بحر کی غزلوں کی ایک دقت یہ بھی ہے کہ ان کو پڑھنے اور ہضم کرنے میں محنت اور وقت زیادہ صرف ہوتے ہیں۔ کم الفاظ میں بڑا مضمون بیان کرنے کی کوشش میں اس مقام سے گذرنا ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ایسی غزل کا اپنا لطف ہے جس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ گذارش ہے کہ چند لمحے غزل کی پذیرائی میں صرف کیجئے اور میری ہمت افزائی فرمائیے۔ شکریہ!
=====================
کسی کی جستجو ہے اورمیں ہوں
حجابِ رنگ و بو ہے اور میں ہوں

نگاہِ شرمگیں ہے اور تو ہے
بیانِ آرزو ہے اور میں ہوں

وفا نا آشنا تیری نظر ہے
دلِ آشفتہ خو ہے اور میں ہوں

خدایا ! بے نیازِ آرزو کر
یہی اک آرزو ہے اور میں ہوں

میں کس منزل پہ آخر آ گیا ہوں؟
یہاں بس تو ہی تو ہے اور میں ہوں

تجھے مے خانہء ہستی مبارک !
مرا ٹوٹا سبو ہےاور میں ہوں

متاعِ زندگی تھوڑی ہے میری
یہی اک آبرو ہے اور میں ہوں

تلاشِ قبلہ و کعبہ سلامت !
طوافِ کو بہ کو ہے اور میں ہوں

مجھے یوں راس آئی خود شناسی
خدا سے گفتگو ہے اور میں ہوں !

مجھے فکرِ دو عالم کیوں ہو سرور؟
وہ میرے رو برو ہے اور میں ہوں!
============
خاکسار : سرور عالم راز
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واه واه! سبحان الله ، سبحان الله ! كیا خوبصورت مرصع اشعار ہیں! بہت خوب ، محترم سرور صاحب!
ہر شعر اپنی جگہ نگینہ ہے ۔ تقریبا تمام ہی اشعار عرفانِ ذات اور عرفانِ حق کے مختلف مسائل و مراحل کو کئی زاویوں سے دیکھ رہے ہیں ۔گہے حجاب و غیاب کا تذکرہ ہے اور گہے باریابی و نارسائی کی باتیں ہیں۔ حضوری و دُوری کی منظر کشی ہے۔ غرض یہ کہ مجموعی طور پر ایک عارفانہ رنگ ہے جو اشعار پر چھایا ہوا ہے کہ جس میں کہیں کہیں عشقِ مجازی کے تلازمات و استعارات جھلکتے ہیں۔ فنی اور تکنیکی لحاظ سے دیکھا جائے تو تمام ہی اشعار غزل کی روایتی لفظیات اور رمزیات سے مزین ہیں۔ پیرایۂ اظہار بھی غزل کی اسلوبی روایات کا آئینہ دار ہے ۔ فصیح و بلیغ الفاظ اور سادہ و براہِ راست بیانیہ! یعنی یہ کہ اس غزل میں کامیاب اور مؤثر کلام کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ داد و تحسین کا مقام ہے!
یوں تو کئی اشعار پر بہت کچھ تفصیلاً لکھا جاسکتا ہے لیکن حاصلِ کلام کم و بیش وہی ہوگا کہ جو مندرجہ بالا ہے۔

محترمی و مکرمی سرور بھائی ، اب آخر میں ایک سخن گسترانہ بات بھی نوکِ قلم پر آیا چاہتی ہے۔ چونکہ آپ کا تقاضا ہوتا ہے کہ نقد و نظر لگی لپٹی رکھے بغیر ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ ہر کسی کے کلام میں کچھ نہ کچھ بہتری کی صورت ہمیشہ باقی رہتی ہے اس لیے ایک شعر پر کہ جہاں میری نظر ٹھٹکی بصد ادب اپنا ناقص خیال پیش کرتا ہوں ۔ وہ شعر یہ ہے:
میں کس منزل پہ آخر آ گیا ہوں؟
یہاں بس تو ہی تو ہے اور میں ہوں
میرے نقطۂ نظر سے پہلے مصرع کے شروع میں نہ صرف یہ کہ "میں" کا لفظ زائد ہے بلکہ فقرے کو اپنی معروف مستعمل صورت سے دور بھی کررہا ہے۔ شعر کے سیاق و سباق میں اس فقرے کی معروف صورت تو یہ بنتی ہے: " یہ کس منزل پہ آخر آگیا ہوں؟" اسی طرح کہنے سے اُس استعجابیہ استفہام کا حق پوری طرح ادا ہوتا ہے کہ جو اس مصرع میں مقصود ہے۔ شاعر چونکہ اُس منزل پر موجود ہے کہ جس کا بیان مصرعِ ثانی میں کیا گیا اس لیے "یہ" کا لفظ لگانے سے مصرعِ ثانی کا بیان زیادہ مربوط و مستحکم ہوجاتا ہے۔ یہ میری ناقص رائے ہے ۔

پس نوشت: آج ارادہ تو یہ لے کر آیا تھا کہ آپ کی نظم "اندیشے" پر ضرور کچھ لکھوں گا لیکن یہ " تازہ" غزل دیکھ کر نہ رہا گیا ۔ سو میرے تبصرے کابوجھ اسی غزل کو اٹھانا پڑگیا۔ :)
کوشش کروں گا کہ ایک دو روز میں بشرطِ فرصت نظم پر بھی کچھ معروضات پیش کروں ۔
 
واه واه! سبحان الله ، سبحان الله ! كیا خوبصورت مرصع اشعار ہیں! بہت خوب ، محترم سرور صاحب!
ہر شعر اپنی جگہ نگینہ ہے ۔ تقریبا تمام ہی اشعار عرفانِ ذات اور عرفانِ حق کے مختلف مسائل و مراحل کو کئی زاویوں سے دیکھ رہے ہیں ۔گہے حجاب و غیاب کا تذکرہ ہے اور گہے باریابی و نارسائی کی باتیں ہیں۔ حضوری و دُوری کی منظر کشی ہے۔ غرض یہ کہ مجموعی طور پر ایک عارفانہ رنگ ہے جو اشعار پر چھایا ہوا ہے کہ جس میں کہیں کہیں عشقِ مجازی کے تلازمات و استعارات جھلکتے ہیں۔ فنی اور تکنیکی لحاظ سے دیکھا جائے تو تمام ہی اشعار غزل کی روایتی لفظیات اور رمزیات سے مزین ہیں۔ پیرایۂ اظہار بھی غزل کی اسلوبی روایات کا آئینہ دار ہے ۔ فصیح و بلیغ الفاظ اور سادہ و براہِ راست بیانیہ! یعنی یہ کہ اس غزل میں کامیاب اور مؤثر کلام کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ داد و تحسین کا مقام ہے!
یوں تو کئی اشعار پر بہت کچھ تفصیلاً لکھا جاسکتا ہے لیکن حاصلِ کلام کم و بیش وہی ہوگا کہ جو مندرجہ بالا ہے۔

محترمی و مکرمی سرور بھائی ، اب آخر میں ایک سخن گسترانہ بات بھی نوکِ قلم پر آیا چاہتی ہے۔ چونکہ آپ کا تقاضا ہوتا ہے کہ نقد و نظر لگی لپٹی رکھے بغیر ہونا چاہیے اور یہ بھی کہ ہر کسی کے کلام میں کچھ نہ کچھ بہتری کی صورت ہمیشہ باقی رہتی ہے اس لیے ایک شعر پر کہ جہاں میری نظر ٹھٹکی بصد ادب اپنا ناقص خیال پیش کرتا ہوں ۔ وہ شعر یہ ہے:
میں کس منزل پہ آخر آ گیا ہوں؟
یہاں بس تو ہی تو ہے اور میں ہوں
میرے نقطۂ نظر سے پہلے مصرع کے شروع میں نہ صرف یہ کہ "میں" کا لفظ زائد ہے بلکہ فقرے کو اپنی معروف مستعمل صورت سے دور بھی کررہا ہے۔ شعر کے سیاق و سباق میں اس فقرے کی معروف صورت تو یہ بنتی ہے: " یہ کس منزل پہ آخر آگیا ہوں؟" اسی طرح کہنے سے اُس استعجابیہ استفہام کا حق پوری طرح ادا ہوتا ہے کہ جو اس مصرع میں مقصود ہے۔ شاعر چونکہ اُس منزل پر موجود ہے کہ جس کا بیان مصرعِ ثانی میں کیا گیا اس لیے "یہ" کا لفظ لگانے سے مصرعِ ثانی کا بیان زیادہ مربوط و مستحکم ہوجاتا ہے۔ یہ میری ناقص رائے ہے ۔

پس نوشت: آج ارادہ تو یہ لے کر آیا تھا کہ آپ کی نظم "اندیشے" پر ضرور کچھ لکھوں گا لیکن یہ " تازہ" غزل دیکھ کر نہ رہا گیا ۔ سو میرے تبصرے کابوجھ اسی غزل کو اٹھانا پڑگیا۔ :)
کوشش کروں گا کہ ایک دو روز میں بشرطِ فرصت نظم پر بھی کچھ معروضات پیش کروں ۔
عزیز مکرم ظہیر صاحب: والسلام علیکم
خط اور نظم پر مفصل لکھنے کا دلی شکریہ حاضر ہے۔ آپ کی تحریر میری تقویت کا باعث ہوئی ۔ جزاک اللہ خیرا۔ میری تقریبا ساری نظمیں ذاتی معاملات و سانحات کا نتیجہ ہیں اور شاید اسی لئے بعض اوقات ان سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جذباتی معاملات میں یہ ہوتا ہے۔
میں کس منزل پہ آخر آ گیا ہوں؟
یہاں بس تو ہی تو ہے اور میں ہوں
اس شعر پر آپ کی تجویز صائب ہے۔ شکریہ۔ یہ شعر میری بیاض میں نہیں تھا۔ جب بیاض سے غزل محفل کے لئے یہاں منتقل کر رہا تھا تو یہ شعر اچانک ذہن میں آیا اور میں نے اسے غزل میں شامل کر لیا۔ :یہ: بہتر ہے اور دوسرے مصرع کی معنویت میں اضافہ اور زور پیدا کرتا ہے۔ :اندیشے: پر آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا۔
==========
سرور راز
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم محترمی و مشفقی !

آپ کی غزل پڑھی ما شاء الله عمدہ و پرکیف غزل ہے -
۔ گذارش ہے کہ چند لمحے غزل کی پذیرائی میں صرف کیجئے اور میری ہمت افزائی فرمائیے۔ شکریہ!

یہ بھی خوب فرمایا بقول شخصے :

لطف سجن دم بدم قہر سجن گاہ گاہ۔۔۔۔یوں بھی سجن واہ واہ ، ووں بھی سجن واہ واہ



=====================
کسی کی جستجو ہے اورمیں ہوں
حجابِ رنگ و بو ہے اور میں ہوں

بہت خوب -ماشاء الله
حجاب رنگ و بو کا جواب نہیں ،یعنی ایک تو حجاب پھر اس قدر خوبصورت و دلکش گویا حجاب در حجاب -عقل و حواس حجاب میں ہی گم ہوجاتے ہیں -


نگاہِ شرمگیں ہے اور تو ہے
بیانِ آرزو ہے اور میں ہوں

ایک اشکال ہے کہ یہاں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مصرعوں کی ترتیب بر عکس ہوتی تو زیادہ فطری بات تھی کہ بیان آرزو کے عمل کا رد عمل نگاہ شرمگیں ہوتا یعنی :

بیانِ آرزو ہے اور میں ہوں
نگاہِ شرمگیں ہے اور تو ہے

لیکن ظاہر سی بات ہے ردیف کی مشکل تھی -

اورموجودہ ترتیب کم از کم میرے لیے تو کچھ غیر فطری سی ہے ،ایک جگہ کہا بھی ہے :

دیکھ کر ہم کو وہ شرمائی بہت
اور ہمیں شرم پہ شرم آئی بہت


وفا نا آشنا تیری نظر ہے
دلِ آشفتہ خو ہے اور میں ہوں

بہت خوب -

خدایا ! بے نیازِ آرزو کر
یہی اک آرزو ہے اور میں ہوں


واہ بہت عمدہ -ما شاء الله

میں کس منزل پہ آخر آ گیا ہوں؟
یہاں بس تو ہی تو ہے اور میں ہوں


ما شاء الله -خوبصورت-
یہی لگتا ہے ٹائپو کے سبب ابتدائی :یہ : کی جگہ :میں : آگیا -

تجھے مے خانہء ہستی مبارک !
مرا ٹوٹا سبو ہےاور میں ہوں

واہ -کیا بات ہے -



متاعِ زندگی تھوڑی ہے میری
یہی اک آبرو ہے اور میں ہوں

آہ -غم انگیز -
الله جل شانہ آپ کو سلامت و عافیت سے رکھے آمین -

تلاشِ قبلہ و کعبہ سلامت !
طوافِ کو بہ کو ہے اور میں ہوں

واہ - خوب -

مجھے یوں راس آئی خود شناسی
خدا سے گفتگو ہے اور میں ہوں !

سبحان الله -کیا بات ہے -

مجھے فکرِ دو عالم کیوں ہو سرور؟
وہ میرے رو برو ہے اور میں ہوں!

دلکش -


غزل میں آپ کا درد دل بھی شامل ہے ، کوئی بھی صاحب دل ایسے کلام سے متاثر ہوئے بن نہیں رہ سکتا -عام انسان جو دیکھتا اور سنتا ہے، اوروں کو بیان کر سکتا ہے لیکن اچھے شاعر کا یہ کمال اور خصوصیت مستزاد ہے کہ جو خود محسوس کرتا ہے اوروں کو بھی وہ محسوس کروا سکتا ہے ،ماشاء الله آپ نے اپنے ذاتی تجربات کو غزل کے روپ میں بخوبی ڈھالا ہے -

آئندہ بھی آپ کی نگارشات کا انتظار رہے گا -
جزاک الله خیرا
 

یاسر شاہ

محفلین
مکرمی و مخدومی !میرا خط آپ کے عنایت نامے کے انتظار میں سوکھ کے کانٹا ہو گیا ہے ،مہینہ ہونے کو آیا ہے مگر اب تک کوئی داد رسی نہیں، کوئی فریاد رسی نہیں ۔اس طرح نہ جانے کتنے خط ہیں کہ جو اب خط کہاں ہیں، حسرتیں ہیں ،وہ غنچے ہیں جو بن کھلے مرجھا گئے،وہ پھول ہیں جو اپنی لطافتوں کی داد پا نہ سکے۔اک ذرا التفات ادھر بھی، اور اک ذرا توجہ وہاں بھی۔
 
محترم جناب سرور عالم راز صاحب!
چھوٹی بحر میں بہت ہی خوبصورت غزل ہے ۔ چونکہ غزل میں بیان کیے گئے مضامین آپ کے ذاتی محسوسات ہیں اس لیے آپ نےانہیں دل سے لکھا ہےیہی وجہ ہے کہ ہر شعر دوسروں کے دل پر بھی اثر کرتا ہے۔
مجھے تو یہ غزل آج کے دور کی لگتی ہے۔ اس لیے میرا سوال ہے کہ آپ اسے پرانی طرز کی غزل کیوں کہتے ہیں؟
 
یاران محفل: تسلیمات !
نئے انداز کی غزلیں آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ پرانی طرز کی غزل کہنے والے اب کم رہ گئے ہیں اور روز بروز کم تر ہوتے جاتے ہیں۔ زمانے اور حالات کا یہی تقاضہ معلوم ہوتا ہے۔ منھ کا مزا بدلنے کی خاطر چھوٹی بحر میں ایک پرانی طرز کی غزل لے کر حاضر ہورہا ہوں۔ چھوٹی بحر کی غزلوں کی ایک دقت یہ بھی ہے کہ ان کو پڑھنے اور ہضم کرنے میں محنت اور وقت زیادہ صرف ہوتے ہیں۔ کم الفاظ میں بڑا مضمون بیان کرنے کی کوشش میں اس مقام سے گذرنا ضروری ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ایسی غزل کا اپنا لطف ہے جس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ گذارش ہے کہ چند لمحے غزل کی پذیرائی میں صرف کیجئے اور میری ہمت افزائی فرمائیے۔ شکریہ!
=====================
کسی کی جستجو ہے اورمیں ہوں
حجابِ رنگ و بو ہے اور میں ہوں

نگاہِ شرمگیں ہے اور تو ہے
بیانِ آرزو ہے اور میں ہوں

وفا نا آشنا تیری نظر ہے
دلِ آشفتہ خو ہے اور میں ہوں

خدایا ! بے نیازِ آرزو کر
یہی اک آرزو ہے اور میں ہوں

میں کس منزل پہ آخر آ گیا ہوں؟
یہاں بس تو ہی تو ہے اور میں ہوں

تجھے مے خانہء ہستی مبارک !
مرا ٹوٹا سبو ہےاور میں ہوں

متاعِ زندگی تھوڑی ہے میری
یہی اک آبرو ہے اور میں ہوں

تلاشِ قبلہ و کعبہ سلامت !
طوافِ کو بہ کو ہے اور میں ہوں

مجھے یوں راس آئی خود شناسی
خدا سے گفتگو ہے اور میں ہوں !

مجھے فکرِ دو عالم کیوں ہو سرور؟
وہ میرے رو برو ہے اور میں ہوں!
============
خاکسار : سرور عالم راز
محترم سرور صاحب ، جہاں تک مجھے یاد ہے ، میں نے آپ کی یہ عمدہ غزل اِس سے قبل بھی دیکھی ہے . دوبارہ پڑھ کر پِھر لطف اندوز ہوا . داد قبول فرمائیے .
 
محترم جناب سرور عالم راز صاحب!
چھوٹی بحر میں بہت ہی خوبصورت غزل ہے ۔ چونکہ غزل میں بیان کیے گئے مضامین آپ کے ذاتی محسوسات ہیں اس لیے آپ نےانہیں دل سے لکھا ہےیہی وجہ ہے کہ ہر شعر دوسروں کے دل پر بھی اثر کرتا ہے۔
مجھے تو یہ غزل آج کے دور کی لگتی ہے۔ اس لیے میرا سوال ہے کہ آپ اسے پرانی طرز کی غزل کیوں کہتے ہیں؟
عزیز مکرم: اب غزل جدید کا دور ہے جو اکثرمیرے سر سے گزر جاتی ہے۔ میرا وقت اب کہاں!! بہر کیف بندہ نوازی کا شکریہ۔ جو لوگ یہاں غزل لگا رہے ہیں انھیں اپنے خیالات بلند کرنے کی ضرورت ہے اوراس کے لٍئے مطالعہ کی وسعت لازمی ہے۔ ورنہ ترقی مشکوک ہے۔ شاعری بھی زندگی کا حصہ ہے اور محنت اور توجہ کی خواہاں ہے۔
 
عزیز مکرم: اب غزل جدید کا دور ہے جو اکثرمیرے سر سے گزر جاتی ہے۔ میرا وقت اب کہاں!! بہر کیف بندہ نوازی کا شکریہ۔ جو لوگ یہاں غزل لگا رہے ہیں انھیں اپنے خیالات بلند کرنے کی ضرورت ہے اوراس کے لٍئے مطالعہ کی وسعت لازمی ہے۔ ورنہ ترقی مشکوک ہے۔ شاعری بھی زندگی کا حصہ ہے اور محنت اور توجہ کی خواہاں ہے۔
محترم جناب سرور عالم راز صاحب! اچھی غزل ہر دور میں پسند کی گئی ہے ۔ اس لیے وہ جدید اور قدیم کی تقسیم سے مبرّا ہوتی ہے۔ اس حساب سے یہ دور بھی آپ کا ہی دور ہے۔ بلکہ ہر دور اچھے شاعروں کا ہی دور ہوتا ہے۔نوآموز شاعروں کا موازنہ اچھے شاعروں سے کریں گے تو ظاہر ہے کہ ان کی شاعری بُری ہی لگے گی۔اور ان کو شاعر سمجھنے والے کڑھتے رہیں گے کہ اچھی شاعری نہیں ہورہی۔
آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ایسے شاعر ہمیشہ نوآموز ہی رہیں گے اگر وہ محنت نہیں کریں گے اور اپنے مطالعہ کو وسیع نہیں کریں گے ۔ اس کے بغیر ان کے خیالات میں بلندی نہیں آئے گی۔

اصلاح کے ضمن میں چند آراء آپ کے گوش گذار کررہا ہوں ۔
اصلاح کی اجازت صرف صلاحیت رکھنے والےاساتذہ کو دی جائے اور اساتذہ کا تعین کسی مناسب طریقے سے کیا جائے۔باقی شعراء اگر چاہیں تو اپنی رائے دیں جسے اصلاح تصور نہ کیا جائے۔
اگر کوئی مبتدی شاعر اصلاح کے لیےغزل لگاتا ہے ۔ فرض کریں کہ پوری غزل میں صرف ایک شعر ہی بہتر ہے۔ اصلاح کرتے ہوئے اساتذہ اگر اس شعر کی تعریف کردیں گے تو شاعر کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ وہ سمجھے گا کہ اس میں اچھا شعر کہنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس لیے وہ مزید محنت کرے گا ۔ ورنہ وہ یا تو مایوس ہوکر شاعری چھوڑ دے گا یا سمجھے گا میری شاعری اچھی ہے لیکن اساتذ ہ جان بوجھ کر تنقید کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اردو کی ترقی نہیں ہوگی۔
اسی طرح جن اشعار کی اصلاح کی جائے تو غلطی کی نشاندہی واضح طور پر کی جائے ۔یعنی
غلطی تکنیکی ہے۔
خیال یا بیان بہترنہیں ہے۔
اردو زبان یا گرامر کی غلطی ہے۔
الفاظ کا چناؤ بہتر نہیں ۔ وغیرہ
اس طرح نئے شاعر وں کو بہتر راہنمائی مل سکتی ہے۔
اللہ تعالٰی آپ کو صحتمند اور خوشیوں سے بھرپورلمبی زندگی عطا فرمائےاور آپ کے رزق میں برکت عطا فرمائے۔
 
محترم جناب سرور عالم راز صاحب! اچھی غزل ہر دور میں پسند کی گئی ہے ۔ اس لیے وہ جدید اور قدیم کی تقسیم سے مبرّا ہوتی ہے۔ اس حساب سے یہ دور بھی آپ کا ہی دور ہے۔ بلکہ ہر دور اچھے شاعروں کا ہی دور ہوتا ہے۔نوآموز شاعروں کا موازنہ اچھے شاعروں سے کریں گے تو ظاہر ہے کہ ان کی شاعری بُری ہی لگے گی۔اور ان کو شاعر سمجھنے والے کڑھتے رہیں گے کہ اچھی شاعری نہیں ہورہی۔
آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ایسے شاعر ہمیشہ نوآموز ہی رہیں گے اگر وہ محنت نہیں کریں گے اور اپنے مطالعہ کو وسیع نہیں کریں گے ۔ اس کے بغیر ان کے خیالات میں بلندی نہیں آئے گی۔

اصلاح کے ضمن میں چند آراء آپ کے گوش گذار کررہا ہوں ۔
اصلاح کی اجازت صرف صلاحیت رکھنے والےاساتذہ کو دی جائے اور اساتذہ کا تعین کسی مناسب طریقے سے کیا جائے۔باقی شعراء اگر چاہیں تو اپنی رائے دیں جسے اصلاح تصور نہ کیا جائے۔
اگر کوئی مبتدی شاعر اصلاح کے لیےغزل لگاتا ہے ۔ فرض کریں کہ پوری غزل میں صرف ایک شعر ہی بہتر ہے۔ اصلاح کرتے ہوئے اساتذہ اگر اس شعر کی تعریف کردیں گے تو شاعر کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ وہ سمجھے گا کہ اس میں اچھا شعر کہنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس لیے وہ مزید محنت کرے گا ۔ ورنہ وہ یا تو مایوس ہوکر شاعری چھوڑ دے گا یا سمجھے گا میری شاعری اچھی ہے لیکن اساتذ ہ جان بوجھ کر تنقید کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اردو کی ترقی نہیں ہوگی۔
اسی طرح جن اشعار کی اصلاح کی جائے تو غلطی کی نشاندہی واضح طور پر کی جائے ۔یعنی
غلطی تکنیکی ہے۔
خیال یا بیان بہترنہیں ہے۔
اردو زبان یا گرامر کی غلطی ہے۔
الفاظ کا چناؤ بہتر نہیں ۔ وغیرہ
اس طرح نئے شاعر وں کو بہتر راہنمائی مل سکتی ہے۔
اللہ تعالٰی آپ کو صحتمند اور خوشیوں سے بھرپورلمبی زندگی عطا فرمائےاور آپ کے رزق میں برکت عطا فرمائے۔
عزیز مکرم خورشید صاحب: والسلام علیکم
ذرہ نوازی کا شکریہ۔ آپ کے خیالات اور تجاویز سے بنیادی طور پر متفق ہوں۔ نئی اور پرانی شاعری کی بحث پرانی بھی ہے اور بیسود بھی لیکن بہر حال چل رہی ہے۔ نئی شاعری بری نہیں ہے اور نہ پرانی غزل ہمیشہ اچھی ہوتی ہے البتہ غزل اپنے مزاج اور تہذیب میں :روٹی، کپڑا اور مکان: قسم کے خیالات کی متحمل نہیں ہے۔ اس کا میں قائل ہوں ۔ کوئی اختلاف رکھتا ہے تو ہرج نہیں کہ اختلاف اکثر بہتری کا سبب بنتا ہے۔ رہ گیا اصلاح کا معاملہ تو یہ نازک ہے۔ اردو محفل میں شاگردوں سے زیادہ :اساتذہ: موجود ہیں ۔ اس ضمن میں خاموشی کو بہتر سمجحتا ہوں۔ استادی کا بھی نشہ ہوتا ہے جو سستی شراب کی طرح چڑھتا جلدی ہے اور اترتا بہت مشکل سے ہے۔ اب میں عمر اور شاعرانہ زندگی کے اس مرحلہ میں اصلاح سے دور رہنے میں اپنی عافیت جانتا ہوں۔ اس میں کسر نفسی یا غرور و تکبر کو کوئی دخل نہیں ہے۔ ببشتر :شعرا: آج کل فن شعر سے کم کم واقف ہیں اور محنت اور تعلیم سے گریزاں ۔ ان کا جو بھی مقصد شاعری سے ہے وہ بظاہر پورا ہو رہا ہے ورنہ ان کی شعر گوئی میں کوئی ترقی تو ضرور نظر آتی۔ میں ان کے حق میں دعائے خیر کا طالب ہوں ۔ انشااللہ،
محفل میں :اساتذہ: کی رائے پر صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ انھوں نے :تنافر: اور :تقابل ردیفین: سے کلی واقفیت حاصل کئے بغیر ان اصطلاحات کو :بیساکھی: بنا رکھا ہے۔جہاں ہم مخرج دو الفاظ متصل نظر آجاتے ہیں وہیں بے سمجھے بوجھے :تنافر: کی لاٹھی داغ دیتے ہیں۔ ایسا ہی حال تقابل ردیفین کا بنا رکھا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مطالعہ اور فکر سے کام لیں اور سوچ سمجھ کر فیصلے کریں لیکن چونکہ اتنا علم نہیں ہے ا ور محنت کا شوق : بقدر بادام: بھی نہیں ہے اس لئے یہ سستا نسخہ ڈھونڈ لیا ہے۔ ایسے میں :شاگردوں : کا اللہ بھی مالک نہیں ہے۔ کوئی کہنے والا اور سننے والا بھی نہیں ہے کیونکہ سب کو مصلحت اور دوستی کی فکر ہے اور بس۔ ان حالات میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف۔
سرور عالم راز
 
آخری تدوین:
عزیز مکرم خورشید صاحب: والسلام علیکم
ذرہ نوازی کا شکریہ۔ آپ کے خیالات اور تجاویز سے بنیادی طور پر متفق ہوں۔ نئی اور پرانی شاعری کی بحث پرانی بھی ہے اور بیسود بھی لیکن بہر حال چل رہی ہے۔ نئی شاعری بری نہیں ہے اور نہ پرانی غزل ہمیشہ اچھی ہوتی ہے البتہ غزل اپنے مزاج اور تہذیب میں :روٹی، کپڑا اور مکان: قسم کے خیالات کی متحمل نہیں ہے۔ اس کا میں قائل ہوں ۔ کوئی اختلاف رکھتا ہے تو ہرج نہیں کہ اختلاف اکثر بہتری کا سبب بنتا ہے۔ رہ گیا اصلاح کا معاملہ تو یہ نازک ہے۔ اردو محفل میں شاگردوں سے زیادہ :اساتذہ: موجود ہیں ۔ اس ضمن میں خاموشی کو بہتر سمجحتا ہوں۔ استادی کا بھی نشہ ہوتا ہے جو سستی شراب کی طرح چڑھتا جلدی ہے اور اترتا بہت مشکل سے ہے۔ اب میں عمر اور شاعرانہ زندگی کے اس مرحلہ میں اصلاح سے دور رہنے میں اپنی عافیت جانتا ہوں۔ اس میں کطسر نفسی یا غرور و تکبر کو کوئی دخل نہیں ہے۔ ببشتر :شعرا: آج کل فن شعر سے کم کم واقف ہیں اور محنت اور تعلیم سے گریزاں ۔ ان کا جو بھی مقصد شاعری سے ہے وہ بظاہر پورا ہو رہا ہے ورنہ ان کی شعر گوئی میں کوئی ترقی تو ضرور نظر آتی۔ میں ان کے حق میں دعائے خیر کا طالب ہوں ۔ انشااللہ،
سرور عالم راز
محترم جناب سرور عالم راز صاحب! آپ کاشکرگذار ہوں کہ آپ نے میرے مراسلے کو قابلِ توجہ سمجھااور جواب کے لیے اپنے مصروف یا آرام کے اوقات میں سےوقت بھی دیا۔
آپ نے فرمایاکہ
غزل اپنے مزاج اور تہذیب میں :روٹی، کپڑا اور مکان: قسم کے خیالات کی متحمل نہیں ہے۔ اس کا میں قائل ہوں ۔ کوئی اختلاف رکھتا ہے تو ہرج نہیں کہ اختلاف اکثر بہتری کا سبب بنتا ہے
کیا غزل کہنے کے لیے مخصوص موضوعات ہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ کون سے ہیں؟
اب میں عمر اور شاعرانہ زندگی کے اس مرحلہ میں اصلاح سے دور رہنے میں اپنی عافیت جانتا ہوں۔ اس میں کطسر نفسی یا غرور و تکبر کو کوئی دخل نہیں ہے
غزل کےمزاج اور تہذیب کی باریکیاں سیکھنے والوں کو کون سمجھائے گا اگر غزل کے علماء حضرات اصلاح کرنے سے دور رہیں گے
اردو محفل میں شاگردوں سے زیادہ :اساتذہ: موجود ہیں ۔ اس ضمن میں خاموشی کو بہتر سمجحتا ہوں۔ استادی کا بھی نشہ ہوتا ہے جو سستی شراب کی طرح چڑھتا جلدی ہے اور اترتا بہت مشکل سے ہے۔
محفل میں اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے بھی کوئی طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔اس میدان کے عالم فاضل لوگ مل کر طے کرسکتے ہیں کہ اساتذہ کی کرسی پر کن حضرات کو بیٹھنا چاہیے۔ ظاہر ہے اصلاح لینے والے تو انہیں ہی اساتذہ سمجھیں گے جو یہ کام کررہے ہیں۔
اللہ تعالٰی آپ کا حامی و ناصر ہو۔
 
محترم جناب سرور عالم راز صاحب! آپ کاشکرگذار ہوں کہ آپ نے میرے مراسلے کو قابلِ توجہ سمجھااور جواب کے لیے اپنے مصروف یا آرام کے اوقات میں سےوقت بھی دیا۔
آپ نے فرمایاکہ

کیا غزل کہنے کے لیے مخصوص موضوعات ہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ کون سے ہیں؟

غزل کےمزاج اور تہذیب کی باریکیاں سیکھنے والوں کو کون سمجھائے گا اگر غزل کے علماء حضرات اصلاح کرنے سے دور رہیں گے
محفل میں اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے بھی کوئی طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔اس میدان کے عالم فاضل لوگ مل کر طے کرسکتے ہیں کہ اساتذہ کی کرسی پر کن حضرات کو بیٹھنا چاہیے۔ ظاہر ہے اصلاح لینے والے تو انہیں ہی اساتذہ سمجھیں گے جو یہ کام کررہے ہیں۔
اللہ تعالٰی آپ کا حامی و ناصر ہو۔
مکرمی خورشیدصاحب: جواب خط کا شکریہ لیکن میں اس گفتگو پر زیادہ لکھنا نہیں چاہتا ہوں۔ آپ نے اپنے مراسلے میں تین سوالات اٹھائے ہیں اور تینوں کا جواب خدا جانے کتنی بار دیا جا چکا ہے۔ چند باتیں لکھ رہا ہوں۔ ان سے شاید اشارہ مل جائے۔ اس کے بعد مجھ کو معذور سمجھئے تو عنایت ہوگی۔
(1) غزل کے موضوع کیا ہیں ؟ اس پر تو کتابیں مل جائیں گی کہ یہ بحث تو روز اول سے چل رہی ہے اور اب :بحث برائے بحث: کا حکم رکھتی ہے۔ :روٹی، کپڑا، مکان: کے لئے دوسری اصناف سخن موجود ہیں ۔ شاعری کا عام قاری بھی یہ جانتا ہے ۔ یہ بات ضرور ہے کہ غزل کے موضوعات میں تنوع چاہئے لیکن اس تنوع کے لئے مطالعہ، فکر، صلاحیت کی ضرورت ہے۔
(2) غزل کے مزاج اور تہذیب کو سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس موضوع پر بھی کتابیں مل جائیں گی۔ یہ معلومات تو عام ہیں یا ہونی چاہئیں۔ اصلاح کا معاملہ اس لئے نازک ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو غالب اور میر سمجھتا ہے یا :استاد:۔چند ہفتے ہوئے میرے ایک مراسلہ کے جواب میں سننا پڑا کہ جو سلسلہ چل رہا ہے اسے نہ چھیڑا جائے کیونکہ وہ :صدیوں سے: اردو میں رائج ہے۔ راقم موصوف کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ خود اردو کی عمر :صدیوں: میں نہیں گنی جا سکتی ہے۔ اب آپ کہئے کہ کون اس جنگل میں اترنے کا روادار ہوگا؟
(3) نام نہاد :اصلاح: کا جو سلسلہ رائج ہے وہ بنیادی طور پر غلط ہے اور اس کی اصلاح اب ممکن نہیں نظرآتی۔ کون اور کیسے یہ طے کرے گا کہ محفل میں کون سا شاعر اصلاح دینے لائق ہے؟ میں نے چند دن ہوئے مختصرا لکھا تھا کہ غالب استاد ہونے کے لئے شاعر میں کیا خصوصیات دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر ان میں سے چند باتیں بھی ضروری ہیں تو وہ کیسے اور کہاں دستیاب ہوں گی؟ انھیں نافذ کون کرے گا اور مانے گا کون؟ بلی اب تھیلے سے نکل چکی ہے۔ جو سلسلہ چل رہا ہے اسے :ٹھوک پیٹ کر: شاید قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے لیکن نیا نظام بنانا ممکن نہیں نظر آتا۔ واللہ اعلم۔ چند ہفتے ہوئے میں نے ایک صاحب علم عزیز دوست کی غزل پر لکھنے کی گستاخی کی تھی۔ کسی تجویز کا ماننا تو بہت دور کی بات ہے میری کسی بات کو لائق اعتنا بھی تصور نہیں کیا گیا۔ لکھ کر میں بہت پچھتایا۔ :اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے : کا مطلب ایک بار پھر ذہن نشین ہو گیا اور آئندہ کے لئے ایسی گستاخی سے توبہ پھر کر لی۔ اللہ توفیق دے کہ اس پر قائم رہ سکوں۔ آپ دعا کیجئے۔
سرور عالم راز
 
مکرمی خورشیدصاحب: جواب خط کا شکریہ لیکن میں اس گفتگو پر زیادہ لکھنا نہیں چاہتا ہوں۔ آپ نے اپنے مراسلے میں تین سوالات اٹھائے ہیں اور تینوں کا جواب خدا جانے کتنی بار دیا جا چکا ہے۔ چند باتیں لکھ رہا ہوں۔ ان سے شاید اشارہ مل جائے۔ اس کے بعد مجھ کو معذور سمجھئے تو عنایت ہوگی۔
(1) غزل کے موضوع کیا ہیں ؟ اس پر تو کتابیں مل جائیں گی کہ یہ بحث تو روز اول سے چل رہی ہے اور اب :بحث برائے بحث: کا حکم رکھتی ہے۔ :روٹی، کپڑا، مکان: کے لئے دوسری اصناف سخن موجود ہیں ۔ شاعری کا عام قاری بھی یہ جانتا ہے ۔ یہ بات ضرور ہے کہ غزل کے موضوعات میں تنوع چاہئے لیکن اس تنوع کے لئے مطالعہ، فکر، صلاحیت کی ضرورت ہے۔
(2) غزل کے مزاج اور تہذیب کو سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس موضوع پر بھی کتابیں مل جائیں گی۔ یہ معلومات تو عام ہیں یا ہونی چاہئیں۔ اصلاح کا معاملہ اس لئے نازک ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو غالب اور میر سمجھتا ہے یا :استاد:۔چند ہفتے ہوئے میرے ایک مراسلہ کے جواب میں سننا پڑا کہ جو سلسلہ چل رہا ہے اسے نہ چھیڑا جائے کیونکہ وہ :صدیوں سے: اردو میں رائج ہے۔ راقم موصوف کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ خود اردو کی عمر :صدیوں: میں نہیں گنی جا سکتی ہے۔ اب آپ کہئے کہ کون اس جنگل میں اترنے کا روادار ہوگا؟
(3) نام نہاد :اصلاح: کا جو سلسلہ رائج ہے وہ بنیادی طور پر غلط ہے اور اس کی اصلاح اب ممکن نہیں نظرآتی۔ کون اور کیسے یہ طے کرے گا کہ محفل میں کون سا شاعر اصلاح دینے لائق ہے؟ میں نے چند دن ہوئے مختصرا لکھا تھا کہ غالب استاد ہونے کے لئے شاعر میں کیا خصوصیات دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر ان میں سے چند باتیں بھی ضروری ہیں تو وہ کیسے اور کہاں دستیاب ہوں گی؟ انھیں نافذ کون کرے گا اور مانے گا کون؟ بلی اب تھیلے سے نکل چکی ہے۔ جو سلسلہ چل رہا ہے اسے :ٹھوک پیٹ کر: شاید قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے لیکن نیا نظام بنانا ممکن نہیں نظر آتا۔ واللہ اعلم۔ چند ہفتے ہوئے میں نے ایک صاحب علم عزیز دوست کی غزل پر لکھنے کی گستاخی کی تھی۔ کسی تجویز کا ماننا تو بہت دور کی بات ہے میری کسی بات کو لائق اعتنا بھی تصور نہیں کیا گیا۔ لکھ کر میں بہت پچھتایا۔ :اپنی عزت اپنے ہاتھ ہوتی ہے : کا مطلب ایک بار پھر ذہن نشین ہو گیا اور آئندہ کے لئے ایسی گستاخی سے توبہ پھر کر لی۔ اللہ توفیق دے کہ اس پر قائم رہ سکوں۔ آپ دعا کیجئے۔
سرور عالم راز
محترم جناب سرور عالم راز صاحب! جواب عنایت فرمانے پر آپ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ایک گستاخی کی اجازت چاہوں گا۔ وہ یہ کہ اللہ سے جو توفیق آپ نے مانگی ہے اس پر آمین کہنے کی بجائے میری دعا یہ ہوگی کہ اللہ تعالٰی آپ کو تندرست و توانا رکھے اور علم کا جو بیش قیمت سرمایہ آپ کے پاس ہے علم کے طالب اس سے مستفید ہوتے رہیں۔ آپ اور دوسرے علماء پورے وقار، مان اور مرتبے کے ساتھ علم کو پھیلانے کے اس سلسلے کی سرپرستی جاری رکھیں۔ آمین
 

فاخر رضا

محفلین
اس تمام گفتگو کو کہیں کتاب کی شکل میں باندھ لیجیے. ورنہ یونہی ضائع ہو جائے گی. اتنی اعلیٰ گفتگو کم سننے کو ملتی ہے
آپ کی غزل بہت اچھی ہے
مجھے بہت پسند آئی. خدا سب کو اس منزل پر پہنچائے
اور آپ کے لئے دعا ہے کہ :اور میں ہوں: کی میں بھی ختم ہوجائے. تاکہ آپ اس فنا کی منزل پر پہنچیں جہاں من و تو نہیں
 
اس تمام گفتگو کو کہیں کتاب کی شکل میں باندھ لیجیے. ورنہ یونہی ضائع ہو جائے گی. اتنی اعلیٰ گفتگو کم سننے کو ملتی ہے
آپ کی غزل بہت اچھی ہے
مجھے بہت پسند آئی. خدا سب کو اس منزل پر پہنچائے
اور آپ کے لئے دعا ہے کہ :اور میں ہوں: کی میں بھی ختم ہوجائے. تاکہ آپ اس فنا کی منزل پر پہنچیں جہاں من و تو نہیں
مکرمی فاخر صاحب:سلام علیکم
بندہ نوازی کا شکریہ۔ غزل آپ کو پسند آئی تو جانئے کہ: پیسے وصول ہو گئے:۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے (حالانکہ بہت کم ہوتا ہے) کہ بیٹھے بیٹھے چند خیالات ذہن میں آجاتے ہیں اور غزل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ غزل کسی ایسے ہی وقت کی یادگار ہے۔ خود مجھ کو بھی پسند ہے جو بڑی بات نہیں کیونکہ ہر شاعر کو اپنا ہر شعر پسند ہوتا ہے! اور راوی سب چین بولتا ہے۔ الحمد للہ۔
سرور راز
 
مکرمی و مخدومی !میرا خط آپ کے عنایت نامے کے انتظار میں سوکھ کے کانٹا ہو گیا ہے ،مہینہ ہونے کو آیا ہے مگر اب تک کوئی داد رسی نہیں، کوئی فریاد رسی نہیں ۔اس طرح نہ جانے کتنے خط ہیں کہ جو اب خط کہاں ہیں، حسرتیں ہیں ،وہ غنچے ہیں جو بن کھلے مرجھا گئے،وہ پھول ہیں جو اپنی لطافتوں کی داد پا نہ سکے۔اک ذرا التفات ادھر بھی، اور اک ذرا توجہ وہاں بھی۔
عزیزی یاسر صاحب: والسلام علیکم
آپ کی شکایت بالکل بجا ہےاور میں شرمندہ ہوں۔ اس باب میں تساہلی کو زیادہ دخل ہے ، ویسے اور اسباب بھی گنوا سکتا ہوں لیکن اس سے کیا حاصل؟ سنا ہے کہ دوستی میں سب کچھ روا ہے ۔ اسی بہانے میری معذرت قبول کر لیں ۔ مستقبل میں اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا۔ پکا وعدہ رہا!
سرور راز
 

ارشد رشید

محفلین
اردو کی عمر :صدیوں: میں نہیں گنی جا سکتی ہے۔
جناب راز صاحب آپ ذرا اپنی اس بات کی وضاحت فرمائیں گے کہ جو آپ نے لکھا
" اردو کی عمر صدیوں: میں نہیں گنی جا سکتی ہے۔"

سن 1042 میں اردو کے ایک شاعر گزرے جن کا نام خواجہ مسعود سعد سلیمان تھا - انہیں اردو کا سب سے پہلا اور صاحبِ دیوان شاعر بھی کہا جا سکتا ہے - کیونکہ انکی کتاب اور کلام کا حوالہ ہمیں امیر خسرو کی تحریروں میں ملتا ہے - اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ تب اردو کو اردو نہیں کہا جاتا تھا ریختہ یا کچھ اور کہتے تھے - تھی وہ اردو ہی - اسی عربی / فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی -
اس بات کو مانٰیں تو اردو شاعری کی عمر ہزار سال بنتی ہے - یعنی دس صدیاں -

ان کو نہ مانٰیں تو امیر خسرو کو مان لیں 1250 عیسوی میں شاعری کیا کرتے تھے - یعنی 800 سال پہلے - آپ کو یہ بھی اردو نہیں ماننی تو ولی دکنی کو مان لیں - 1667 میں آئے تھے یعنی کوئ ساڑھے تیں سو سال پہلے - اس کو نہیں مانیں تو میر کو تو اردو کا شاعر مانتے ہوں گے نہ آپ -
تین سو سال انکو بھی آئے ہوئے ہوگے-

پھر ہم کیوں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اردو شاعری کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے ؟
اور جب شاعری صدیوں پر محیط ہے تو اصلاح اور استادی شاگردی کا سلسلہ بھی صدیوں پر محیط ہے -

حوالے کے لیے یہ کتاب ملاحظہ فرما سکتے ہیں
 

یاسر شاہ

محفلین
عزیزی یاسر صاحب: والسلام علیکم
آپ کی شکایت بالکل بجا ہےاور میں شرمندہ ہوں۔ اس باب میں تساہلی کو زیادہ دخل ہے ، ویسے اور اسباب بھی گنوا سکتا ہوں لیکن اس سے کیا حاصل؟ سنا ہے کہ دوستی میں سب کچھ روا ہے ۔ اسی بہانے میری معذرت قبول کر لیں ۔ مستقبل میں اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا۔ پکا وعدہ رہا!
سرور راز
مشفقی و استاذی! جواب خط کا شکریہ ،آپ نے معذرت کر کے مجھے شرمندہ کر دیا ،الله تعالیٰ ہم سب کو اصلاح کی توفیق عطا فرمائے -آمین کہ یہ ذوق و شوق بھی مقبولین کا ہے -
جواب دینا کچھ مشکل نہیں کم سے کم :شکریہ : بھی لکھ دیا جائے تو غنیمت ہے کہ ہم ایسے مردودوں کو یوں لگے گا کہ حضرت نے کچھ گھاس ڈال دی ہے -اور کیا چاہیے -
 
Top