غزل: کوئی دستک دے تو سمجھو رازِ سربستہ کھلا * فضا ابنِ فیضی

کوئی دستک دے تو سمجھو رازِ سربستہ کھلا
چھوڑ کر سوتا ہے اب وہ گھر کا دروازہ کھلا

تھی یہ مشکل بیچ میں حائل رہی دیوارِ سنگ
کوہ کن سے بھی نہ پورے طور سے تیشہ کھلا

تم ذرا پورے بدن کی آنکھ سے پڑھنا مجھے
میں ہوں اپنی ہی کتابِ جاں کا اک صفحہ کھلا

ہم بھی چہرے پر سجا کر خوش ہیں پسپائی کی گرد
حسرتِ آوارگی جب سو گئی، رستہ کھلا

ہر جگہ بنتی نہیں، معصوم خاموشی سے بات
ہم نے اک فقرہ اچھالا تھا کہ سَو نکتہ کھلا

کام آیا ذوق ناخن پروری کا، ورنہ وہ
مجھ سے یوں کاہے کو کھلتا، جس طرح عقدہ کھلا

ایک پہلو منظرِ لامنظری کا یہ بھی ہے
دیکھ لو تم بھی کہ آنکھیں بند ہیں چہرہ کھلا

لوگ ذہن و دل میں جس کی پرورش کرتے رہے
لکھ دیا دیوار پر میں نے وہی جملہ کھلا

طرز پیچیدہ سہی، آہنگ ہے کتنا رواں
حرف حرف، اک روزنِ معنیِ بیگانہ کھلا

زندگی ہے اے فضا، سود و زیاں کا کاروبار
روز رہتا ہے یہاں بازارِ اندیشہ کھلا

***
فضا ابنِ فیضی
 
Top