غزل: کلی پھوٹ آئے، چٹکنے نہ پائے ٭ نعیم صدیقیؒ

کلی پھوٹ آئے، چٹکنے نہ پائے
تڑپ جائے بلبل، چہکنے نہ پائے

گھُلے گرچہ سینے میں دل اے حمیت!
مگر کوئی آنسو ٹپکنے نہ پائے

وہی رند ہے رند اِس مے کدے کا
جو کھل کر پیے اور بہکنے نہ پائے

بڑی آزمائش ہے وہ اشکِ لرزاں
جو امڈے مگر پھر ٹپکنے نہ پائے

قفس کیا ہے؟ تنکوں کی بودی سی سازش!
اسیر اس کے اندر پھڑکنے نہ پائے

مزے عاشقی کے اگر ہیں تو جب ہیں
سلگتی رہے اور بھڑکنے نہ پائے

شبِ غم کی ظلمت کا اتنا تحفظ؟
کہیں اک شرر تک چمکنے نہ پائے

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 
Top