غزل: کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی ٭ منور رانا

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی

یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی

ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی

کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید
اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی

مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی

قفس میں موسموں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
خدا جانے بہار آئی چمن میں یا خزاں آئی

گھروندے تو گھروندے ہیں چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں
اڑانے کے لیے آندھی اگر نام و نشاں آئی

کبھی اے خوش نصیبی میرے گھر کا رخ بھی کر لیتی
اِدھر پہنچی، اُدھر پہنچی، یہاں آئی، وہاں آئی

٭٭٭
منور رانا
 

شمشاد

لائبریرین
قفس میں موسموں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
خدا جانے بہار آئی چمن میں یا خزاں آئی

خوبصورت کلام۔

شریک محفل کرنے کا شکرہ تابش بھائی۔
 
بہت خوب! عمدہ انتخاب

ویسے عنوان دیکھر مجھے لگا کہ یہ منور رانا کے مہاجر نامے کا پارٹ 2 ہوگا، جس میں وہ تقسیم کے بعد داخل کیے گیے کلیمز کی بات کر رہے ہوں گے :)
 
Top