غزل : ڈرتے رہو بنے نہ فلک مہرباں کہیں - علامہ رشید ترابیؔ

غزل
ڈرتے رہو بنے نہ فلک مہرباں کہیں
جب گوشِ ہوش ہے تو بنوں کیوں زباں کہیں

پھر اک دھواں ہے اور مرا داغ دیدہ دل
ممکن ہے جل رہا ہو کوئی آشیاں کہیں

کیا ان بلندیوں پہ بھی ہیں اتنی پستیاں
لے جا کہ خیمہ ڈال دے اے آسماں کہیں

اک داغِ زندگی ہے یہ بے راہ زندگی
سجدے کہیں ہیں اُن کے قدم کے نشاں کہیں

ہر سانس اک اشارۂ محسوس ہے کہ چل
غفلت پسند موت بھی ہے ناگہاں کہیں

شاید وہی ہے منزلِ تکمیلِ انتظار
ملتے ہیں راستے میں زمان و مکاں کہیں

سچ ہے یہی حرم تو ہمارا ہے پاسباں
ڈر ہے حرم کو لوٹ نہ لیں پاسباں کہیں

اے بندگانِ خاص ترابیؔ ہے منتظر
اتنا ادب سے کہہ دو ملیں وہ جہاں کہیں
علامہ رشید ترابیؔ
 
Top