غزل : چپکے سے آ کے دھیان کی زنجیر کھینچ لے - اقبال ساجد

غزل
چپکے سے آ کے دھیان کی زنجیر کھینچ لے
خوابوں کی چھت سے وہم کے شہتیر کھینچ لے

چُپ کس لئے ہے اینٹ کا پتھر سے دے جواب؟
حق چاہئے تو میان سے شمشیر کھینچ لے

مظلوم ہے تو پیش ہو دربارِ وقت میں
انصاف چاہتا ہے تو زنجیر کھینچ لے

گھونٹیں نہ خواہشوں کا گلا کیوں دلوں میں لوگ؟
جب ہاتھ ہی دعاؤں سے تاثیر کھینچ لے

پھر دوسروں کی آنکھ سے تنکا تلاش کر
پہلے خود اپنی آنکھ سے شہتیر کھینچ لے

ممکن ہے دُھول جھونک کے سورج کی آنکھ میں
ذرے کا ہاتھ میان سے شمشیر کھینچ لے

کہتے ہیں وقت لوٹ کے آتا نہیں کبھی
اس یادگار لمحے کی تصویر کھینچ لے

ساجدؔ گلِ مراد کو دامن میں خود گرا
اپنے ہی ہاتھ سے خطِ تقدیر کھینچ لے
اقبال ساجد
 
آخری تدوین:
Top