غزل - پھر کسی چاند کی آہٹ

ارشد رشید

محفلین
غزل

پھر کسی چاند کی آہٹ سی لبِ بام رہی
پھر وہی درد کے لمحوں میں مری شام رہی

پھر کسی اوس کے قطرے نے بھگویا کوئی گُُل
پھر مرے دل میں وہی تشنگیِ جام رہی

پھر کوئی چاک گریباں نظر آیا ہے مجھے
پھر مرے پیشِ نظر حسرتِ ناکام رہی

پھر کوئی وحشتِ انجام ہوئی سینہ سپر
پھر مرے دل کی خوشی لرزہ براندام رہی

پھر کوئی سات سوالات کو سونپے ہے مجھے
پھر کسی اور کی قسمت تھی، مرے نام رہی

پھر کوئی آشنا آواز بلائے ہے مجھے
پھر پلٹنے کی جو خواہش تھی مری، خام رہی

پھرکوئی دشتِ فنا مجھ کو پکارے ارشد !
پھر مرے جینے کی حسرت یونہی ناکام رہی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب، اچھی غزل ہے ارشد بھائی، اللّٰہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
پھر کوئی سات سوالات کو سونپے ہے مجھے
پھر کسی اور کی قسمت تھی، مرے نام رہی
ناگوار خاطر نہ ہو تو بتائیے کہ یہ "سات سوالات" سے کیا مراد ہے۔ کیا یہ کوئی محاورہ ہے؟
پھر کوئی آشنا آواز بلائے ہے مجھے
پھر پلٹنے کی جو خواہش تھی مری، خام رہی
اوپر والے شعر میں "سونپے ہے مجھے" اور نیچے والے میں "بلائے ہے مجھے" میں نے تو سنا ہے کہ یہ طرز اب متروک ہے۔ براہِ کرم اس پر بھی ذرا روشنی ڈالیے گا۔

نوٹ: میں نے سوالات سیکھنے کی غرض سے کیے ہیں نہ کہ کسی اعتراض کے۔
 

ارشد رشید

محفلین
ناگوار خاطر نہ ہو تو بتائیے کہ یہ "سات سوالات" سے کیا مراد ہے۔ کیا یہ کوئی محاورہ ہے؟
جناب اس غزل کے پس منظر میں میرے زہن میں قصہ حاتم طائی ہے جو میرا پسندیدہ کردار تھا- اس طرح کے اشعار تلمیح کہلاتے ہیں اور یقینا اس کے سمجھنے کے لیے پڑھنے والے کو اس حوالے سے واقف ہونا ضروری ہے - اور ہر شخص ہر حوالے سے واقف نہیں ہوسکتا - لہٰذ ا یہ رسک شاعر کو لینا پڑتا ہے
 

ارشد رشید

محفلین
اوپر والے شعر میں "سونپے ہے مجھے" اور نیچے والے میں "بلائے ہے مجھے" میں نے تو سنا ہے کہ یہ طرز اب متروک ہے۔ براہِ کرم اس پر بھی ذرا روشنی ڈالیے گا۔
جناب متروک تو نہیں کہہ سکتے مگر کم کم ضرور استعمال ہوتی ہے - میرے نزدیک یہ اس غزل کے مزاج سے میل کھاتی ہے اور چونکہ ترک نہیں ہوئ اس لیے اس کا استعمال صحیح ہے -
ابھی کسی اور کا شعر تو یاد نہیں آرہا مگر جدید دور کے ایک اچھے شاعر مرتضیٰ برلاس کا ایک شعر زہن میں آرہا ہے
صدا یہ کس کی ہے جو دور سے بلائے مجھے
قریب جاؤں تو کچھ بھی نظر نہ آئے مجھے
 
ارشد صاحب !
ماشاء اللہ بہت اچھی غزل ہے ۔ تفصیلی تبصرہ بشرطِ فرصت مگر تبصرے کی خاص ضرورت بھی نہیں ہے ، اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ غزل اُردُو شاعری میں ایک خوبصورت اور دیر پا اضافہ ہے جس کی آب و تاب دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ کیے دیتی ہے، واہ۔
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
اشاء اللہ بہت اچھی غزل ہے ۔ تفصیلی تبصرہ بشرطِ فرصت مگر تبصرے کی خاص ضرورت بھی نہیں ہے ، اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ غزل اُردُو شاعری میں ایک خوبصورت اور دیر پا اضافہ ہے جس کی آب و تاب دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ کیے دیتی ہے، واہ۔
:) :)
شکیل صاحب آپ کی عنایت کا بہت بہت شکریہ مگر سر عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائے :)
من آنم کہ من دانم - اتنی تعریف کا میں ہر گز اہل نہیں ہوں
 
اوپر والے شعر میں "سونپے ہے مجھے" اور نیچے والے میں "بلائے ہے مجھے" میں نے تو سنا ہے کہ یہ طرز اب متروک ہے
غالب کی دو غزلوں کے یہ اشعار بطور امثلہ پیش ہیں جن میں اُنھوں نے یہی طرزِ بیان اِختیار کیا ہے :
1)کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آ جائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
2)
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

مطلب یہ کہ میراور درد کے زمانے کے بعض الفاظ تو ضرور متروک ہوئے جیسے ٹک ذرا کے معنوں میں خاص طور پر لیکن آئے ہے، جائے ہے ، لے ہے ، دے ہے یہ بات چیت کا انداز تھا ، اِ س انداز سے بولنے والے اب بھی مل جائیں گے خال خال ہی سہی اور یہ قدیم کلاسیکی رنگ ، شاعری کے جدید رنگ کے لیے نیا اور عجیب و غریب بھی نہیں بلکہ کبھی کبھی اور کہیں کہیں سلیقے سے استعمال میں آئے تو بہت اچھا بھی لگتا ہے جیسے یہاں:

پھر کوئی سات سوالات کو سونپے ہے مجھے
پھر کسی اور کی قسمت تھی، مرے نام رہی

پھر کوئی آشنا آواز بلائے ہے مجھے
پھر پلٹنے کی جو خواہش تھی مری، خام رہی​
 
آخری تدوین:
جناب اس غزل کے پس منظر میں میرے ذہن میں قصہ حاتم طائی ہے جو میرا پسندیدہ کردار تھا
فلم حاتم طائی کا ایک گانا ہے جانیوالے خدا کی رحمتوں کا تجھ پر سایا ۔ اُس گانے کی الاپ میں چند اشعار تھے وہ میں بھول نہ سکا، خدمت میں نذر ہیں:
جو عشق کی آگ میں جلتے ہیں ، انگاروں سے کب ڈرتے ہیں
وہ پھول سمجھ کر شعلوں سے ہنس ہنس کر کھیلا کرتے ہیں
الفت کے پیارے جلووں میں پری زادوں کے پر جلتے ہیں
اس رب کی قسم اِس جلوے میں انسان ہی پھولتے پھلتے ہیں
دوسرو ں کے واسطے جو کھیلتا ہے جان پر
جان اُس کے ہے نچھاور آن اور ایمان پر
دل سے عاشق ہے خدا کا دلربا سچائی کا
حشر تک زندہ رہے گا نام حاتم طائی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر وہ گانا یعنی : جانے والے خدا کی رحمتوں کا تجھ پر سایا
میرا خیال ہے یہ حمام بادگرد کی خبر لانے کے لیے روانہ ہونے سے پہلے حاتم طائی کی شان میں تھا، واللہ اعلم بالصواب۔
 
غزل

پھر کسی چاند کی آہٹ سی لبِ بام رہی
پھر وہی درد کے لمحوں میں مری شام رہی

پھر کسی اوس کے قطرے نے بھگویا کوئی گُُل
پھر مرے دل میں وہی تشنگیِ جام رہی

پھر کوئی چاک گریباں نظر آیا ہے مجھے
پھر مرے پیشِ نظر حسرتِ ناکام رہی

پھر کوئی وحشتِ انجام ہوئی سینہ سپر
پھر مرے دل کی خوشی لرزہ براندام رہی

پھر کوئی سات سوالات کو سونپے ہے مجھے
پھر کسی اور کی قسمت تھی، مرے نام رہی

پھر کوئی آشنا آواز بلائے ہے مجھے
پھر پلٹنے کی جو خواہش تھی مری، خام رہی

پھرکوئی دشتِ فنا مجھ کو پکارے ارشد !
پھر مرے جینے کی حسرت یونہی ناکام رہی
ارشد صاحب ، عمومی طور پر غزل پسند آئی . داد حاضر ہے . مطلع اور دوسرا شعر خوب ہیں . تیسرے شعر میں میری ناچیز رائے میں ’ہے‘ کی جگہ ’تھا‘ کا محل ہے کیونکہ ردیف ’رہی‘ زمانۂ ماضی میں ہے . ویسے شعر عمدہ ہے . چوتھے اور پانچویں شعر کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہوا . چھٹے شعر میں ’بلائے ہے‘ کی ترکیب پر گفتگو ہو چکی ہے . میرے خیال میں کبھی کبھار ایسی ترکیب كے استعمال میں ہرج نہیں ، لیکن ردیف ’رہی‘ کی نسبت سے یہاں بھی مجھے ’ہے‘ کی جگہ ’تھی‘ کی ضرورت محسوس ہوئی . یہاں آپ ’بلائے ہے‘ کی جگہ ’بلاتی تھی‘ کہتے تو بہتر تھا . مقطع اچھا ہے ، لیکن ’یوں ہی‘ اضافی لگا .
یہ میرے ناچیز تاثرات ہیں . بقول آپ كے ’اَیڈِیٹَر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں .‘ :)
 

ارشد رشید

محفلین
ارشد صاحب ، عمومی طور پر غزل پسند آئی . داد حاضر ہے . مطلع اور دوسرا شعر خوب ہیں . تیسرے شعر میں میری ناچیز رائے میں ’ہے‘ کی جگہ ’تھا‘ کا محل ہے کیونکہ ردیف ’رہی‘ زمانۂ ماضی میں ہے . ویسے شعر عمدہ ہے . چوتھے اور پانچویں شعر کا مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہوا . چھٹے شعر میں ’بلائے ہے‘ کی ترکیب پر گفتگو ہو چکی ہے . میرے خیال میں کبھی کبھار ایسی ترکیب كے استعمال میں ہرج نہیں ، لیکن ردیف ’رہی‘ کی نسبت سے یہاں بھی مجھے ’ہے‘ کی جگہ ’تھی‘ کی ضرورت محسوس ہوئی . یہاں آپ ’بلائے ہے‘ کی جگہ ’بلاتی تھی‘ کہتے تو بہتر تھا . مقطع اچھا ہے ، لیکن ’یوں ہی‘ اضافی لگا .
یہ میرے ناچیز تاثرات ہیں . بقول آپ كے ’اَیڈِیٹَر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں .‘ :)
عرفان صاحب - غزل کی پسندیدگی کا بہت شکریہ - آپ کی باتوں پہ کچھ گزارشات کرتا ہوں
میں ذاتی طور پر اس کو مناسب نہیں سمجھتا کہ شاعر سے اسکے شعر کا مطلب پوچھا جائے - سمجھ آگیا تو اچھا ورنہ اللہ اللہ خیر صلیٰ :)
مگر مجھ سے اس سائٹ پر احباب کو پہلے ہی کافی شکایتیں ہو چکی ہیں اس لیے میں آپ کے سوال کے جواب میں ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہو نا ضروری نہیں
نہیں لکھ سکتا - اس لیے اپنے مزاج کے برخلاف اپنے ہی اشعار کی مختصر تشریح کر دیتا ہوں - آپ کو یقینا اس سے اختلاف ہو سکتا ہے -

پھر کوئی چاک گریباں نظر آیا ہے مجھے
پھر مرے پیشِ نظر حسرتِ ناکام رہی
== آپ نے کہا کہ یہاں ہے کا نہیں تھا کا محل ہے مگر میری رائے میں ایسا نہیں ہے - رہی - - یعنی نظر آیا تو ابھی ہے مگر میرے پیشِ نظر حسرتِ ناکام رہی
ہے یا رہی تھی یہ دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے -

پھر کوئی وحشتِ انجام ہوئی سینہ سپر
پھر مرے دل کی خوشی لرزہ براندام رہی
== سر یہ تو بہت واضح بات ہے - کسی چیز کے انجام کی وحشت کا خیال پھر سامنے آکر کھڑاہے جس کی وجہ سے دل کی خوشی لرزاں ہے - یہاں سینہ سپر سے مطلب یہ ہوا کہ آکر ڈٹ گئی ہے - جانے کا نام نہیں لیتی اور دوسرے مصرعے میں سینے کے ساتھ دل کا استعمال رعایتِ لفظی ہے - جو کہ شعر کا حسن ہوتا ہے -

پھر کوئی سات سوالات کو سونپے ہے مجھے
پھر کسی اور کی قسمت تھی، مرے نام رہی
== یہ ایک تلمیح ہے قصہ حاتم طائ میں منیر شامی کسی دوشیزہ کو حاصل کرنے کے لیئے اسکے سات سوالات کے جوابات پانے نکلتا ہے مگر پا نہیں سکتا آخر کار حاتم طائی اس کی مدد کرتا ہے - یعنی وہ محنت کرنا کسی اور کی قسمت میں تھا پر رہی وہ حاتم کے کھا تے میں - اب تو شعر کا مطلب سمجھ آ جانا چاہییے - سر اگر یہ قصہ نہیں سنا جو اردو ادب میں کلاسیک میں شامل ہے تو یہ شعر سمجھ نہیں آ سکتا مگر ہر تلمیح کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے -

پھرکوئی دشتِ فنا مجھ کو پکارے ارشد !
پھر مرے جینے کی حسرت یونہی ناکام رہی

سر لفظ یونہی اضافی نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ بیکار میں ناکام رہی - اور پھر کوئ پہلے مصرعے میں استعمال ہوا ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے -
یعنی جینے کی حسرت ایک بار پھر ان ہی وجوہات کی بنا پر ناکام رہی جن کی وجہ سے پہلے بھی ناکام ہوچکی ہے -
 

یاسر شاہ

محفلین
ارشد رشید بھائی ماشاء الله آپ کی یہ مسلسل غزل پسند آئی -بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اب تک کی آپ کی کاوشوں میں یہ غزل ایسی ہے جس میں آپ کی کہنہ مشقی صاف جھلک رہی ہے -

ان شعروں میں الفاظ کے چناؤ ،روانی اور بندش کی خوبی سے آپ نے ایسی تاثیر پیدا کی ہے کہ قاری بہت سی چیزیں نظر انداز کر کے غزل کے بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے، اسے ہی سحر طاری کرنا کہتے ہیں جو کہ ہر شاعر کے بس کی بات نہیں -سو داد قبول کیجیے -

ردیف کو بدل کر اور معمولی سی دو ایک ترامیم کر کے ایک ذوقی تجربہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں -دیکھ لیجیے گا ،زیادہ سے زیادہ آپ غیر متفق ہوں گے سو ایسی کوئی بڑی بات نہیں ،کم از کم آپ سے کسی غل غپاڑے کی امید نہیں -


پھر کسی چاند کی آہٹ سی لبِ بام ہوئی
پھر انھی درد کے لمحوں میں مری شام ہوئی

پھر کسی اوس کے قطرے نے بھگویا کوئی گُُل
پھر مرے دل میں وہی تشنگیِ جام ہوئی

پھر کوئی چاک گریباں نظر آیا ہے مجھے
پھر مرے پیشِ نظر حسرتِ ناکام ہوئی

پھر کوئی وحشتِ انجام ہوئی سینہ سپر
پھر مرے دل کی خوشی لرزہ براندام ہوئی

پھر کوئی سات سوالات کو سونپے ہے مجھے
پھر کسی اور کی تقدیر مرے نام ہوئی

پھر کوئی آشنا آواز بلائے ہے مجھے
پھر پلٹنے کی جو خواہش تھی مری، خام ہوئی

پھرکوئی دشتِ فنا مجھ کو پکارے ارشد !
پھر مرے جینے کی حسرت یونہی ناکام ہوئی
 

ارشد رشید

محفلین
ردیف کو بدل کر اور معمولی سی دو ایک ترامیم کر کے ایک ذوقی تجربہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں -دیکھ لیجیے گا ،زیادہ سے زیادہ آپ غیر متفق ہوں گے سو ایسی کوئی بڑی بات نہیں ،کم از کم آپ سے کسی غل غپاڑے کی امید نہیں -
یاسر شاہ صاحب - بڑی نوازش آپ نے پسند کیا اس غزل کو - اور سر اگر نہ بھی کرتے تو میں کوئ غل غپاڑہ نہیں کرتا :)
باقی آپ کی ترمیم بھی اچھی ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے جو بات میں رہی سے بیان کر سکتا ہوں وہ ہوئئ سے بیان نہیں ہوتی - یہ اپنے اپنے ذوق اور انداز کی بات ہے -
بہر حال نوازش آپ کی -
 
Top