شہزاد احمد غزل: پرانے دوستوں سے اب مروت چھوڑ دی ہم نے

پرانے دوستوں سے اب مروت چھوڑ دی ہم نے
معزز ہو گئے ہم بھی، شرافت چھوڑ دی ہم نے

میسر آ چکی ہے سربلندی مڑ کے کیوں دیکھیں
امامت مل گئی ہم کو تو امت چھوڑ دی ہم نے

کسے معلوم کیا ہوگا مآل آئندہ نسلوں کا
جواں ہو کر بزرگوں کی روایت چھوڑ دی ہم نے

یہ ملک اپنا ہے اور اس ملک کی سرکار اپنی ہے
ملی ہے نوکری جب سے بغاوت چھوڑ دی ہم نے

ہے اتنا واقعہ اس سے نہ ملنے کی قسم کھا لی
تأسف اس قدر گویا وزارت چھوڑ دی ہم نے

کریں کیا یہ بلا اپنے لیے خود منتخب کی ہے
گلا باقی رہا لیکن شکایت چھوڑ دی ہم نے

ستارے اس قدر دیکھے کہ آنکھیں بجھ گئیں اپنی
محبت اس قدر کر لی، محبت چھوڑ دی ہم نے

جو سوچا ہے عزیزوں کی سمجھ میں آ نہیں سکتا
شرارت اب کے یہ کی ہے شرارت چھوڑ دی ہم نے

الجھ پڑتے اگر، تو ہم میں تم میں فرق کیا رہتا
یہی دیوار باقی تھی سلامت چھوڑ دی ہم نے

گنہ گاروں میں شامل مدعی بھی اور ملزم بھی
ترا انصاف دیکھا اور عدالت چھوڑ دی ہم نے

٭٭٭
شہزاد احمد
 
Top