غزل : وہیں سے ٹوٹی ہوئی چند چوڑیاں بھی ملیں - بیدل حیدری

غزل
گری جو برق ، چمن کو تجلیاں بھی ملیں
اور اُس کے ساتھ پرندوں کی بوٹیاں بھی ملیں

وہ جس مکاں سے ملی کوتوالِ شہر کی لاش
وہیں سے ٹوٹی ہوئی چند چوڑیاں بھی ملیں

نکالیں بچوں کی لاشیں جو ہم نے ملبے سے
نہ صرف بستے ملے بلکہ تختیاں بھی ملیں

زبانیں کاٹ کے اس نے جہاں چھپا دی تھیں
وہاں سے اہلِ قلم کی کچھ اُنگیاں بھی ملیں

یہ اور بات بَری کر دیا گیا قاتل
اگرچہ قتل کی واضح نشانیاں بھی ملیں

کہ جیسے قاف کی وادی میں آ گئے بیدلؔ
مسافرت میں ہمیں ایسی بستیاں بھی ملیں​
بیدل حیدری
 
Top