غزل: واقفِ راز کوئی ہے ہی نہیں ٭ نصر اللہ خان عزیز

واقفِ راز کوئی ہے ہی نہیں
موت ڈرنے کی ورنہ شَے ہی نہیں

جلوۂ حق ہے ہر طرف پیدا
اور کوئی جہاں میں ہے ہی نہیں

ہے محبت میں بھی عجیب سرور
نشہ آور جہاں میں مَے ہی نہیں

کفر کے حق میں جو ہو نغمہ سرا
مجھ کو حق سے ملی وہ نَے ہی نہیں

چھیڑ اس شوخ سے چلی جائے
قصہ یہ مستحقِ طَے ہی نہیں

زنده باد اے دعائے نیم شبی
خوشتر اس لَے سے کوئی لَے ہی نہیں

اب وہ تسکین کس کو دیں گے عزیزؔ
میرے سینے میں دل تو ہے ہی نہیں

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیز
 
Top