میرا جی غزل : نگری نگری پِھرا مسافر گھر کا رستہ بُھول گیا : از : میراجی

غزل
از : میراجی


نگری نگری پِھرا مسافر گھر کا رستہ بُھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا، اپنا پرایا بُھول گیا

کیا بُھولا، کیسے بُھولا، کیوں پوچھتے ہو؟ بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی، بُھولا بھالا بُھول گیا

کیسے دِن تھے کیسی راتیں، کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سُندر سپنا بُھول گیا

اندھیارے سے ایک کِرن نے جھانک کے دیکھا، شرمائی
دُھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ ، بُھول گیا

یاد کے پھیر میں آ کر دِل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دُکھ میں سُکھ ہے سُکھ میں دُکھ ہے، بھید یہ نیارا بُھول گیا

ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نُور مٹا جب اِک پل بیتا، بُھول گیا

سُوجھ بُوجھ کی بات نہیں ہے، من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا، ساگر گہرا بُھول گیا

ہنسی ہنسی میں ، کھیل کھیل میں، بات کی بات میں رنگ مِٹا
دِل بھی، ہوتے ہوتے آخر گھاو کا رِسنا بُھول گیا

اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دِل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا، رونا دھونا بُھول گیا

جِس کو دیکھو اُس کے دِل میں شکوہ ہے تو اِتنا ہے
ہمیں تو سب کچھ یاد رہا، پر ہم کو زمانہ بُھول گیا

کوئی کہے یہ کس نے کہا تھا، کہہ دو جو کچھ جی میں ہے
میراجی کہہ کر پچھتایا اور پِھر کہنا بُھول گیا

شاعر : میراجی
حوالہ : کُلیاتِ میراجی
صفحہ نمبر : 719 - 720
مرتب : ڈاکٹر جمیل جالبی
ناشر : اُردو مرکز ۔ لندن
 
Top