غزل: موج در موج ہے دریا تیرا ٭ پروفیسر کرم حیدری

موج در موج ہے دریا تیرا
تشنہ لب پھرتا ہے پیاسا تیرا

تہہ بہ تہہ دھند کے پردے ہیں یہاں
کیا نظر آئے سراپا تیرا

خامشی میری ہے، حیرت میری
آئنے تیرے ہیں، جلوا تیرا

جانتے سب ہیں پہ کہتے ہیں ”نہیں“
کیسا تنہا ہوا رسوا تیرا

پھول کھلتے ہیں تو یاد آتا ہے
مسکراتا ہوا چہرا تیرا

چاند چڑھتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں
ٹکٹکی باندھ کے رستہ تیرا

ہم سا دیوانہ کوئی ہو تو سہی
یوں تو دم بھرتی ہے دنیا تیرا

دل ہے گلشن تو ہے تیرا گلشن
اور ہے صحرا تو ہے صحرا تیرا

اب وہاں کھلتے ہیں یادوں کے گلاب
تھا جہاں خارِ تمنا تیرا

اب وہاں چاند بچھے جاتے ہیں
تھا جہاں نقشِ کفِ پا تیرا

جب بھی ظلمت مجھے ڈسنے آئے
نور بن جاتا ہے سایہ تیرا

روپ میں نغمے کے ڈھل جاتا ہے
لب پہ جب آتا ہے شکوا تیرا

مجھ کو امید مسیحاؤں سے
اور منہ دیکھیں مسیحا تیرا

ہے محبت بھی عبادت ہی کرمؔ
اس میں شامل ہو جو ایما تیرا
٭٭٭
پروفیسر کرمؔ حیدری
 
Top