شکیب جلالی غزل- مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ھوئے بھی دیکھ - شکیب جلالی

مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ھوئے بھی دیکھ
سورج ھوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
ھر چند راکھ ھو کے بکھرنا ھے راہ میں
جلتے ھوئے پروں سے اڑا ھوں مجھے بھی دیکھ
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
تو نے کہا تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ھوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
بچھتی تھی جس کی راہ میں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پیروں تلے بھی دیکھ
کیا شاخ باثمر ھے جو تکتا ھے فرش کو
نظریں اٹھا شکیب کبھی سامنے بھی دیکھ
 

محمداحمد

لائبریرین
بھائی بہت شکریہ

کہ آپ اس بہتات سے عمدہ کلام پیش کررہے ہیں۔ لیکن آپ سے گذارش ہے کہ "پسندیدہ کلام" میں پوسٹنگ کی ہدایات بھی ضرور پڑھیے اور کم از کم عنوان میں مطلع کا پہلا مصرع ضرور تحریر کیجے۔ مثال کے لئے آپ کی پیش کردہ غزل کو ہی لے لیتے ہیں۔

غزل ۔ مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ھوئے بھی دیکھ - شکیب جلالی

اُمید ہے آپ ان باتوں کا خیال رکھیں گے ۔
 
Top