فراز غزل - عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی ( احمد فراز)

عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
بہت ملول تھا میں ،اداس تھا وہ بھی

کسی کے شہر میں کی گفتگو ھواؤں سے
یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی

ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
مگر گماں تھا یہ بھی ، قیاس تھا وہ بھی

کہاں اب غم دنیا کہ اب غم جاں
وہ دن بھی تھے کہ ہمیں یہ راس تھا وہ بھی

فراز تیرے گریباں پہ کل جو ہنستا تھا
اسے ملے تو دریدہ لباس تھا وہ بھی
 
Top