محسن نقوی غزل: سایۂ گل سے بہر طور جدا ہو جانا

سایۂ گل سے بہر طور جدا ہو جانا
راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا

اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا
میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا

موسمِ گل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا
قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رہا ہو جانا

قصرِ آواز میں اک حشر جگا دیتا ہے
اس حسیں شخص کا تصویر نما ہو جانا

راہ کی گرد سہی، مائلِ پرواز تو ہوں
مجھ کو آتا نہیں نقشِ کفِ پا ہو جانا

زندگی تیرے تبسم کی وضاحت تو نہیں؟
موجِ طوفاں کا ابھرتے ہی فنا ہو جانا

کیوں نہ اس زخم کو میں پھول سے تعبیر کروں
جس کو آتا ہو ترا بندِ قبا ہو جانا

اشکِ کم گو! تجھے لفظوں کی قبا گر نہ ملے
میری پلکوں کی زباں سے ہی ادا ہو جانا

قتل گاہوں کی طرح سرخ ہے رستوں کی جبیں
اک قیامت تھا مرا آبلہ پا ہو جانا

پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وسعت
پھر بڑے شوق سے تم میرے خدا ہو جانا

بے طلب درد کی دولت سے نوازو مجھ کو
دل کی توہین ہے مرہونِ دعا ہو جانا

میری آنکھوں کے سمندر میں اترنے والے
کون جانے تری قسمت میں ہے کیا ہو جانا

کتنے خوابیدہ مناظر کو جگائے محسنؔ
جاگتی آنکھوں کا پتھرایا ہوا ہو جانا

٭٭٭
محسن نقوی
 
Top