غزل: زیست کی مشکلات کیا جانے::از: محمد خلیل الرحمٰن

غزل
محمد خلیل الرحمٰن
زیست کی مشکلات کیا جانے
وہ ستمگر یہ بات کیا جانے
تیرے نینوں میں جوبھی ڈوب گیا
حسن کیا، کائینات کیا جانے
بے رُخی جس کا ہی مقدر تھی
وہ مئے التفات کیا جانے
مرسکا اور نہ جی سکا جو شخص
موت کیا ہے حیات کیا جانے
حسنِ مغرور، حسنِ بے پروا
وہ یہ نازک نِکات کیا جانے
وصل کا ایک پل ملا جس کو
ہجر کی کالی رات کیا جانے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے خلیل، اصلاح کی زیادہ ضرورت تو نہیں ہے۔لیکن کچھ باتیں ضرور۔
زیست کی مشکلات کیا جانے
وہ ستمگر یہ بات کیا جانے
÷÷ دوسرے مصرع میں واحد اور پہلے مصرع میں جمع؟
تیرے نینوں میں جوبھی ڈوب گیا
حسن کیا، کائینات کیا جانے
÷÷نینوں کی جگہ’ آنکھوں‘ استعمال کرنے کی کوئی خاص وجہ۔ مجھے اس قسم کے الفاظ کے استعمال پر بالی ووڈ کے گانے یاد آتے ہیں۔
بے رُخی جس کا ہی مقدر تھی
وہ مئے التفات کیا جانے
÷÷ جس کا ہی‘ میں روانی کی کمی ہے۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے نا​
بے رخی ہی نصیب تھا جس کا​
مرسکا اور نہ جی سکا جو شخص
موت کیا ہے حیات کیا جانے
÷÷ اس میں بھی روانی کچھ متاثر لگ رہی ہے۔ کچھ متبادل کا سوچا جائے۔ پہلے مصرع کی ایک یہ شکل ممکن ہے
مر ہی پایا نہ جی سکا جو شخص
دوسرے مصرع کی ایک شکل تو یوں سمجھ میں آئی ہے
وہ حیات و ممات کیا جانے
اور کچھ بھی سوچو۔
 
Top