غزل: زلفِ عشق کے پیچ و خم

علی امان

محفلین
غزل: زلفِ عشق کے پیچ و خم
دل ہے باغی سر ہے خم
بدلا پھر اندازِ ستم

جائیں جہاں الفت مفقود
دیکھیں جدھر پتھر کے صنم

دل کا حال بتائیں کیا
رکھتے ہیں شعلہ پیہم

کہتے ہیں ہم بات بڑی
لفظ چنیں پر کم سے کم

رات اندھیری، منزل دور
رستہ گم، راہی بے دم

اس کا ہمارا جوڑ کہاں
ہم ہیں شعلہ وہ شبنم

ڈالیں گے تسلیم کی خو
دل میں پال رکھیں گے غم

الجھے اماؔں سلجھانے میں
زلفِ عشق کے پیچ و خم​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top