نظر لکھنوی غزل: دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں ٭ نظرؔ لکھنوی

دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں
منکر کی مجالس میں لیکن خود شیخِ مکرم ہوتے ہیں

جنت ہے تمہارا مل جانا، دوزخ ہے بچھڑ جانا تم سے
کچھ اس کے سوا معلوم نہیں کیا خلد و جہنم ہوتے ہیں

وہ آخرِ شب کا سناٹا، وہ کیفِ تقرب کا عالم
مائل بہ کرم وہ ہوتا ہے، مصروفِ دعا ہم ہوتے ہیں

دیکھیں نہ تو ان کی بے نوری، سمجھیں نہ تو ان کی ناسمجھی
قدرت کے اشارے تادیبی، بندوں کو تو پیہم ہوتے ہیں

رندوں کی نگاہیں کیوں نہ اٹھیں، ساقی کی نگاہوں کی جانب
ساقی کی نگاہوں سے ظاہر اسرارِ دو عالم ہوتے ہیں

احساسِ محبت، رنج و الم، ہم رشتہ و پیوستہ ہیں نظرؔ
یہ بطنِ ازل سے پیدا ہی کہتے ہیں کہ تواَم ہوتے ہیں

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

یاسر شاہ

محفلین
واہ برادرم بہت خوب غزل ہے -

جنت ہے تمہارا مل جانا، دوزخ ہے بچھڑ جانا تم سے
کچھ اس کے سوا معلوم نہیں کیا خلد و جہنم ہوتے ہیں

عالی شان شعر -

آپ تو خاصے شریف معلوم ہوتے ہیں -اگر حضرتؒ ہمارے دادا ہوتے تو شاید مطلع کچھ یوں ہوتا :

دورانِ خطابت منبر پر ہم غیر پہ برہم ہوتے ہیں
منکر کی مجالس میں لیکن خود پسرِ پسرم ہوتے ہیں :LOL:
 
Top