یاس غزل: دلِ آگاہ نے جب راہ پہ لانا چاہا - مرزا یاس یگانہ چنگیزی

غزل
دلِ آگاہ نے جب راہ پہ لانا چاہا
عقلِ گم راہ نے دیوانہ بنانا چاہا

ناگہاں چرخِ ستم گار نے کروٹ بدلی
بختِ بیدار نے جب مجھ کو جگانا چاہا

پھر سمانے لگی دنیا کی ہوا "مَیں" کی طرح
زانوئے فکر سے جب سر کو اُٹھانا چاہا

دلِ بیدار نے گھبرا کے مجھے چونکایا
نفس نے جب کسی مشکل میں پھنسانا چاہا

جذبۂ شوق نے جب عشق کی صورت پکڑی
پھر مٹائے نہ مٹا ، لاکھ مٹانا چاہا

جامہ زیبوں پہ کفن نے بھی دیا وہ جوبن
دوڑ کر سب نے کلیجے سے لگانا چاہا

بال و پر نوچ کے صیّاد نے آزاد کیا
حقِ حدمت جب اسیروں نے جتانا چاہا

لکھنؤ میں غزل اب یاسؔ کو پڑھنے ہی نہ دو
ذرے نے پہلوئے خورشید دبانا چاہا
مرزا یاس یگانہ چنگیزی
1918ء
 

طارق شاہ

محفلین
جذبۂ شوق نے جب عشق کی صُورت پکڑی
پھر مٹائے نہ مٹا ، لاکھ مٹانا چاہا

کیا خُوب !
 
آخری تدوین:
Top