شکیب جلالی غزل - خزاں کے چاند نے جھک کے یہ پوچھا کھڑکی میں - شکیب جلالی

خزاں کے چاند نے جھک کے یہ پوچھا کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ھے اس حویلی میں
یہ آدمی ھیں کہ سائے ھیں آدمییت کے
گزر ھوا ھے میرا کس اجاڑ بستی میں
جھکی چٹان،پھسلتی گرفت جھولتا جسم
میں اب گرا ھی گرا تنگ و تار گھاٹی میں
زمانے بھر سے نرالی ھے آپ کی منطق
ندی کو پار کیا کس نے الٹی کشتی میں
جلائے ھی کیوں اگر اتنے قیمتی تھے خط
کریدتے ھو عبث راکھ اب انگیٹھی میں
عجب نہیں جواگیں یاں درخت پانی کے
کہ اشک بوئےھیں شب بھر کسی نے دھرتی میں
مری گرفت میں آکر نکل گئی تتلی
پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مٹھی میں
چلو گے ساتھ مرے آگہی کی سرحد تک
یہ رہ گزار اترتی ھے گہرے پانی میں
میں اپنی بے خبری سے شکیب واقف ھوں
بتاؤ پیچ ھیں کتنے تمہاری پگڑی میں
 
Top