غزل: جیسے جیسے ہوا ہے اندھیرا (مہدی نقوی حجازؔ)

سید عاطف علی

لائبریرین
شکریہ برادر ۔ مزمل شیخ بسمل ۔۔اندھیرے کا عام محاوراتی تلفظ تو یہی فعولن ہے ۔اور اندھے اور آندھی کا فعلن ۔جیسا کہ آسی بھائی نے بتایا۔۔۔لیکن یہاں کیوں کہ شعری محل پیش نظر ہے لہذا اس تناظر میں یہ اندھیرا دونوں طرح استعمال ہو سکتا ہے ( یعنی دوسری صورت مفعولن بھی جائز ہے کوئی حرج نہیں صرف لہجے اور اسلوب پر فرق پڑتا ہے وہ بھی میرے خیال میں کوئی منفی نہیں )۔۔۔ ۔ کوئی مثال فی الوقت ذہن میں نہیں تاہم میرے خیال میں مل سکتی ہیں۔۔۔جیسا کہ برادر حجاز نے کیا ہے وہ بھی ایک ہی شعر میں۔۔۔دیکھتا ہے مجھے اندھیرے میں۔۔کیا کوئی بھیڑیا ہے اندھیرا
 
غالباً اندھیرا کا تلفظ میرے خیال میں فعولن اور اندھیر کا مفعول ہے۔ اندھیر میں نون کا اعلان اور اندھیرا یا اندھیری میں نون غنہ ہے۔ فی الوقت ہاتھ کچھ ایسا تنگ ہے کہ زیادہ تفصیل سے بات نہیں کر پاؤنگا۔ سید عاطف علی بھائی کیا کہتے ہیں؟
بجا ارشاد، جنابِ شیخ! سید صاحب کی قیمتی رائے کا انتظار ہے۔
 
ایک مصرع کسی کا ذہن میں آ رہا ہے:

کیا کہوں تاریکئِ زندانِ غم اندھیر ہے
اگر یہ بحر رمل مثمن محذوف میں ہے تو ’’اندھیر‘‘ یہاں مفعول کے وزن پر ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک مصرع کسی کا ذہن میں آ رہا ہے:
کیا کہوں تاریکئِ زندانِ غم اندھیر ہے
اگر یہ بحر رمل مثمن محذوف میں ہے تو ’’اندھیر‘‘ یہاں مفعول کے وزن پر ہے۔
جی آسی صاحب۔ اچھی مثال پیش کی ہے دیوان غالب سے۔
کیا کہوں تاریکئِ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں‌ نہیں۔
 
غالب: اندھیری بر وزن فعولن:

کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا

اندھیر بروزن مفعولُ
ہو رہا ہے جہان میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے

میر: اندھیری بروزن فعولن

ہجر میں روتا ہوں ہر شب میں تو اس صورت سے یاں
وے اندھیری مینھ برسے جوں کبھو شدت سے یاں

اندھیر بروزن مفعولُ
کچھ نہیں جان ان کے پیش تار مو
گھر میں شمعی رنگوں کے اندھیر ہے

اندھیرے بروزن فعولن:
رہے خیال نہ کیوں ایسے ماہ طلعت کا
اندھیرے گھر کا ہمارے وہی اجالا ہے

اندھیری: فعولن
کب میر ابر ویسا برساوے کر اندھیری
جیسا کہ روتے ہم نے دیکھا ہے چشم تر کو

اندھیرا: فعولن
جی رک گیا کہیں تو پھر ہوئے گا اندھیر ا
مت چھیڑ ابر مجھ کو یوں ہی برس برس کر

اندھیرا: فعولن
مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک
روشنی ہے سو یاں مرے دم سے

میرے نزدیک بھی اندھیرا فعولن ہے۔ اور اندھیر مفعولُ ہے۔
اساتذہ کے کلام میں شاید اندھیرا کو مفعولن باندھنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جیسا کہ میں نے عرض کیا اندھیرے کی ساخت اور وزن تو یہی فعولن ہے ۔ لیکن میری رائے میں دراصل ۔اندھیر۔اندھیرا اندھاری اندھیاری وغیرہ ایک ہی چیز لفظ کی حالتیں ہیں۔ اس کا شعری استعمال (مجھے) دونوں طرح صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ جیسا کہ کہیں کہیں کسی حالت کے ساتھ دیکھا جاسکتاہے۔میرے خیال میں اس کی مزید مثالیں تلاش کرنے سے مل سکتی ہیں۔
اس رات اندھاری میں مت بھول پڑوں تجھ سوں۔۔۔۔شاید تُس سوں ہے۔
ٹک پاؤں کے جھانجھے کی جھنکار سناتی جا۔۔۔۔۔شاید ایک جگہ میں نے جھانجھن پڑھا تھا۔ولی دکنی
نام سنتا ہوں جو میں گور کی اندھاری کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔چاندنی نام ہے شبدیز کی اندھیاری کا ۔۔۔
شایددونوں ناسخ کے مصرعے ہیں۔
یہاں میں ثابت کر نا نہیں چاہ رہا کے یہی صحیح ہے۔بلکہ فقط ان کے عروضی استعمال کے جائز ہونے کے پہلو کو محسوس کیےجانے کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہا ہوں۔اور یہ کہ لفظ کی فطری نیچر کی مناسبت سے بھی کہ دونوں صورتیں ایک دوسرے سے کوئی خاص متفاوِت و متعارِض نہیں۔ صرف لہجے اور اسلوب پر اثر انداز ہو تی ہیں۔
 

عینی مروت

محفلین
رات جیسے وعید ہے دن کی
نور کی بد دعا ہے اندھیرا

بجھ رہا ہے ہماری پھونکوں سے
جیسے کوئی دیا ہے اندھیرا

بہت خووووووب!بہت عمدہ کلام ۔۔۔۔۔
(y)
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تو میں بھی سوچ رہا تھا کہ پر پہلا مصرع وزن سے خارج ہے۔ لیکن جب دیکھا کہ وہ بھی ایک دوسری بحر میں تقطہع ہو رہے ہیں، تب سمجھ میں آیا کہ عزیزی حجاز نے ’ان دھیرا‘ باندھا ہے۔ میں تو یہ استعمال غلط ہی سمجھتا ہوں۔ اندھا اور اندھیر میں ضرور معلنہ ہے نون، لیکن اندھیرا، اندھیری وغیرہ میں نہیں۔ اسے فعولن ہی ہونا چاہئے، مفعولن نہیں۔ پوری غزل میں ردیف ’تاریکی‘ کر دو، درست ہو جائے گی۔ فی احال تو ردیف غلط ہی ہے
 
Top