غزل: جبِیں کی جب رسائی ان کے سنگِ آستاں تک تھی (زکی کیفی)

جبِیں کی جب رسائی ان کے سنگِ آستاں تک تھی
مِرے دستِ تصرف میں فضائے لا مکاں تک تھی
رہو آرام سے اہلِ چمن، اب کچھ نہیں ہو گا
یہ چشمک برق و باراں کی ہمارے آشیاں تک تھی
حصولِ منزلِ مقصود سے اچھی تھی ناکامی
جو لذت جستجو میں تھی وہ سعئ رایگاں تک تھی
مراحل عشق میں کچھ اور بھی آئیں گے دل والو
یہ فریاد و فغاں تو کوششِ ضبطِ فغاں تک تھی
یقیں کی منزلوں میں رہنما ہے اب جنوں میرا
خِرد کی رہنمائی عالمِ وہم و گماں تک تھی
ابھی سے کس لیے ہے عارضِ گلنار پر شبنم
ابھی تو بات محفل میں حدیثِ دیگراں تک تھی
ہنسی غم کی اڑاؤ، بادۂ گلرنگ سے کھیلو
کہ فکرِ گردشِ دوراں درِ پیرِ مغاں تک تھی
جو رہرو بے سہارا چل پڑے تھے، پا گئے منزل
مگر جن کی نظر محدود میرِ کارواں تک تھی
وہ چشمِ مست کی گردش ابھی تک یاد ہے کیفی
فضا مخمور تھی مستی زمیں سے آسماں تک تھی
 
Top