غزل تنقید کے لیے پیش خدمت ہے

شہزادسائل

محفلین
محبت کے جھوٹے خداؤں سے کہہ دو
نہیں ڈرتے ایسی سزاؤں سے کہہ دو
چراغِ وفا ہے ابھی بانکپن میں
دکھائیں نہ تندی ہواؤں سے کہہ دو
تمہیں آخرش پسپا ہونا پڑے گا
مقابل نہ آئیں ہواؤں سے کہہ دو
مرے گھر مصائب کی دعوت ہے کل شب
چلی آئیں ساری بلاؤں سے کہہ دو
بلا سے بلائیں میرے گھر جو آئیں
بلا کی بلا ہوں بلاؤں سے کہہ دو
تفرقوں میں برکت نہ پائی کسی نے
سبھی مل کے آؤ سزاؤں سے کہہ دو
قضا نے مقرر گھڑی پہ ہے آنا
ابھی کھیلو کودو وباؤں سے کہہ دو
زمانے سے بنجر پڑی ہے یہ دھرتی
ذرا کھل کے برسیں گھٹاؤں سے کہہ دو
تمہیں سجدہ ریزی سکھائیں گے اک دن
زمانے کی جھوٹی اناؤں سے کہہ دو
تصور بھی کرنا نہیں خود کشی کا
مرا در کھلا ہے وفاؤں سے کہہ دو
غمِ نا رسائی مقدر ہے سائل
ذرا مسکُراو فضاؤں سے کہہ دو​
 
آخری تدوین:

شہزادسائل

محفلین
اس کی تشریح درکار رہے گی۔

محترم اس سے پہلے شعر میں میں نے بلاؤں کو دعوت دی ہے کے میرے گھر آؤ دعوت ہے کل مصائب کی
پھر اس کے بعد میں کہہ رہا ہوں کے میری بلا سے اگر بلائیں آئیں گی بھی تو کیوں کے میں خود بلا کی بلا ہوں (بہت بڑی بلا ہوں ) یہ پہلے انہیں بتا دینا
 

شکیب

محفلین
چراغِ وفا ہے ابھی بانکپن میں
دکھائیں نہ تندی ہواؤں سے کہہ دو
تمہیں آخرش پسپا ہونا پڑے گا
مقابل نہ آئیں ہواؤں سے کہہ دو
تکرار کا احساس ہورہا ہے۔
تمام اشعار پر غور نہیں کر پایا، معذرت۔
آپ کا لہجہ بے باک ہے، مجھے کاٹ دار اور بے باک لہجے کی شاعری بہت پسند ہے۔ جاری رکھیں۔ اشعار بڑھانے کی بجائے ان کی خوبصورتی اور معنی آفرینی پر دھیان دیں۔ دوسرے لفظوں میں کوانٹٹی سے زیادہ کوالٹی پر زور لگائیں۔
محفل میں ضرور آتے جاتے رہیں۔
اللہ حامی و ناصر ہو۔
 
Top