غزل: تصور میں کسی کے ہم نے جو آنسو بہائے ہیں ٭ ملک نصر اللہ خان عزیز

تصور میں کسی کے ہم نے جو آنسو بہائے ہیں
فرشتوں نے وہ سب گن گن کے پلکوں سے اٹھائے ہیں

محبت نے مٹا ڈالی تمیزِ قربت و دوری
ہم ان کو دور کیوں سمجھیں، جو رگ رگ میں سمائے ہیں

تصور میں ہزاروں مرتبہ ہم کوئے جاناں میں
گئے ہیں اور آئے ہیں، گئے ہیں اور آئے ہیں

جفا اُن کی، وفا اُن کی، حیا اُن کی، ادا اُن کی
انہی کے تذکرے پاس اپنے، اب اُن کے بجائے ہیں

وہ دو آنسو گراں ہیں عظمتِ کونین پر، اے دل
وداعِ دوست کے ہنگام جو ہم نے بہائے ہیں

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
 
Top