غزل: تری ادائیں بھی محرمانہ، مری نوائیں بھی محرمانہ ٭ ملک نصر اللہ خان عزیزؔ

تری ادائیں بھی محرمانہ، مری نوائیں بھی محرمانہ
زمانہ کیوں سننا چاہتا ہے؟ نہیں زمانے کا یہ فسانہ

ہم اُن سے ملنے کا اے دل اک دن تراش لیں گے کوئی بہانہ
کہ شوق کتنا ہی سادہ دل ہو، طبیعت اس کی ہے شاطرانہ

عجب نہیں ہے کہ ایک آنسو اُنہیں مرا دلنواز کر دے
کہ اُن کی رحمت تو ڈھونڈتی ہے نوازشوں کے لیے بہانہ

خبر نہیں ہے یہ محفلِ دل پڑی ہے کیوں اس طرح سے سُونی
وہی ہے یاہُوئے زاہدانہ، وہی ہے جوشِ مئے مغانہ

بہت دنوں سے ہے دل پریشاں، بچیں گے کس طرح دین و ایماں
کہ شوق بے تابِ آرزو ہے، طرازِ محبوب کافرانہ

مئے محبت کی بے خودی نے مجھے وہ بخشا سرورِ دائم
کہ آستاں تیرا اور میں ہوں، کہ میں ہوں اور تیرا آستانہ

نہ اُن کی اس سادگی پہ جانا، عزیزؔ دل کو بچا کے رکھنا
ہزار سادہ ہو حُسن لیکن، ادائیں ہوتی ہیں ساحرانہ

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
 
Top