رئیس امروہوی غزل : بے حجابی پردۂ دیدار ہو کر رہ گئی ! - رئیس امروہوی

غزل
بے حجابی پردۂ دیدار ہو کر رہ گئی !
آنکھ ملتے ہی نظر بیکار ہو کر رہ گئی

غیر کو زلفِ ہلالی پر ہے کیا کیا دسترس؟
میری قسمت سے وہی تلوار ہو کر رہ گئی

کہہ گئی آہستہ آہستہ یہ کیا موجِ نسیم ؟
ہر گلی گویا لبِ گفتار ہو کر رہ گئی

شیخ کہتا تھا کہ ہے تسبیح دست آویز خلد
پھر وہ کیوں ہم رشتۂ زنار ہو کر رہ گئی

زندگی آزردۂ آزار ہجر و وصل کیا ؟
زندگی خود مستقل آزار ہو کر رہ گئی

بوئے گل آوارگی سے ہو گئی اقبال مند
میری آشفتہ سری ادبار ہو کر رہ گئی

یادِ ماضی سے دلِ حساس آخر کیا ملا؟
ایک مبہم سی خلش بیدار ہو کر رہ گئی

فکرِ فن فکرِ سخن فکرِ جہاں فکرِ معاش
نوجوانی شکوۂ افکار ہو کر رہ گئی

صبح کو سورج اُبھر کر بدلیوں میں چھپ کیا
دھوپ نذرِ سایۂ دیوار ہو کر رہ گئی
رئیس امروہوی
1940ء
 
Top