غزل: بزمِ ہستی میں تُو جو زمزمہ پرداز نہ ہو ٭ ملک نصر اللہ خان عزیز

بزمِ ہستی میں جو تُو زمزمہ پرداز نہ ہو
نغمۂ شوق نہ ہو، سوز نہ ہو، ساز نہ ہو

سرخیِ شرم ترے رُخ کی جو غماز نہ ہو
بزم میں غیر کو معلوم مِرا راز نہ ہو

مجھ پہ افشائے محبت کا ہے الزام غلط
کہیں ممکن ہے تِرا راز، مِرا راز نہ ہو؟

تجھ سے مل کر میں جو خاموش سا ہو جاتا ہوں
سوچتا ہوں یہ کہیں شوق کا آغاز نہ ہو

گر یہی کیفِ تصور ہے تو اے میرے خدا!
"شب کا انجام نہ ہو، صبح کا آغاز نہ ہو"

ہائے اُس طائرِ مجبور کی حسرت جس کو
شوقِ پرواز تو ہو، رخصتِ پرواز نہ ہو

زندگی مجھ پہ تو دشوار ہوئی جاتی ہے
خوب ہے عشق جو یہ عشق کا انداز نہ ہو

میرے کہنے سے وہ مائل بہ کرم ہوں بھی تو کیا
نگہِ لطف وہ کیسی جو خدا ساز نہ ہو

تجھ کو اب اتنا خدا یاد جو آتا ہے عزیزؔ
یہ کہیں فیضِ محبت ہی کا اعجاز نہ ہو

٭٭٭
ملک نصر اللہ خان عزیزؔ
 
Top