غزل براے اصلاح

نآدم مسرور

محفلین
نفس پر اپنے اے! واعظ کبھی کیا غور کرتا ہے
تو کہتا کچھ ہے سر ممبر عمل کچھ اور کرتا ہے

مجھے حاکم ہی پاتا ہے، غلام مجھکو بنا کر بھی
مطالعہ جب بھی وہ دشمن کوئی بھی دور کرتا ہے

چھپانا غم کو چاہتا ہوں، مجھے ہے اسکو بہلانا
مگر یہ ہے کہ دلِ نادان ابھی سے شور کرتا ہے

عدالت کچھ نہیں کرتی ،تھکا مت یوں قدم اپنے
رفع مسلے کو مل کر تو پولیس اور چور کرتا ہے

قتل هوتى تھی دنیا دیکھ کے مگر اب یہ میرا والد
قبل دنیا میں آنے سے مجھے درگور کر تا ہے

مہاجر بن کے پھرتا ہے ،مسلمان اب صرف ہجرت
کھبی تُرکی ،کبھی بنگلا ،کبھی لاہور کرتا ہے

بُرا کیا ہے پھر رونے میں،کسی کے واسطے نآدم
سما کے آنسوؤں پر گر خوشی ہر مور کرتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
پہلے دو اشعار کے قوافی درست نہیں ہیں
مطلع میں غَور اور اَور مفتوح آپس میں درست قوافی ہیں اور پوری غزل میں یہی مفتوح قوافی باندھنا تھا۔ جو دوسرے شعر کے دَور تک درست ہے لیکن تیسرے شعر سے سب سادہ چور، لاہور، مور قوافی ہیں۔
باقی کئی الفاظ درست تلفظ کے ساتھ نہیں ہیں، مسئلہ، مطالعہ قتل صرف وغیرہ
یہ درست ہو جائیں تو پھر دیکھتا ہوں اسے دوبارہ
 

نآدم مسرور

محفلین
پہلے دو اشعار کے قوافی درست نہیں ہیں
مطلع میں غَور اور اَور مفتوح آپس میں درست قوافی ہیں اور پوری غزل میں یہی مفتوح قوافی باندھنا تھا۔ جو دوسرے شعر کے دَور تک درست ہے لیکن تیسرے شعر سے سب سادہ چور، لاہور، مور قوافی ہیں۔
باقی کئی الفاظ درست تلفظ کے ساتھ نہیں ہیں، مسئلہ، مطالعہ قتل صرف وغیرہ
یہ درست ہو جائیں تو پھر دیکھتا ہوں اسے دوبارہ
شکریہ بہت شکریہ
 
Top