غزل براہ اصلاح : یاں کوئی میرا گرویدہ نہ تھا

السلام علیکم
سر الف عین و دیگر اساتذہ اصلاح فرما دیجئے۔۔۔

افاعیل : فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

یاں کوئی بھی میرا گرویدہ نہ تھا،
میں کسی کا بھی پسندیدہ نہ تھا،

آج ایسا زندگی میں کیا ہوا؟
میں کبھی بھی اتنا رنجیدہ نہ تھا

وقت نے اس کا بنا ڈالا مذاق
زندگی سے جو بھی سنجیدہ نہ تھا

دیکھ کر ہر بار الگ حیرت ہوئی
ورنہ تیرا حسن نادیدہ نہ تھا

چند پیسوں کی ضرورت تھی اسے
مسئلہ اتنا تو پیچیدہ نہ تھا

لاش بتلاتی تھی قاتل کا پتا
ہم سے تیرا جرم پوشیدہ نہ تھا

شکریہ
 
آخری تدوین:
اچھی غزل ہے، ماشاءاللہ۔
مطلع کچھ تشنہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر ایک اور شعر قطعہ بند کردیں تو بہتر ابلاغ ہوسکتا ہے۔

چند پیسوں کی ضرورت تھی اسے
مسئلہ اتنا تو پیچیدہ نہ تھا
دوسرا مصرعہ بہت جاندار ہے، پہلا اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔ اگر پیسوں کے ذکر کے بجائے محب اور محبوب کے مابین کسی معاملے کا ذکر ہو تو بہت اچھا شعر تخلیق ہوسکتا ہے۔

لاش بتلاتی تھی قاتل کا پتا
ہم سے تیرا جرم پوشیدہ نہ تھا
میرے خیال سے اس مقام پر پتہ دینا زیادہ مناسب محاورہ ہے بہ نسبت پتہ بتانے کے۔
لاش خود دیتی تھی قاتل کا پتہ۔۔

دعاگو،
راحلؔ
 
اچھی غزل ہے، ماشاءاللہ۔
مطلع کچھ تشنہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر ایک اور شعر قطعہ بند کردیں تو بہتر ابلاغ ہوسکتا ہے۔


دوسرا مصرعہ بہت جاندار ہے، پہلا اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔ اگر پیسوں کے ذکر کے بجائے محب اور محبوب کے مابین کسی معاملے کا ذکر ہو تو بہت اچھا شعر تخلیق ہوسکتا ہے۔


میرے خیال سے اس مقام پر پتہ دینا زیادہ مناسب محاورہ ہے بہ نسبت پتہ بتانے کے۔
لاش خود دیتی تھی قاتل کا پتہ۔۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت شکریہ محترم سلامت رہیں
 
سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل:
اب دیکھیے ؟


مطلبی تھا وہ بھی گرویدہ نہ تھا
میں کسی کا بھی پسندیدہ نہ تھا،

آج ایسا زندگی میں کیا ہوا؟
میں کبھی بھی اتنا رنجیدہ نہ تھا

وقت نے اس کا بنا ڈالا مذاق
زندگی سے جو بھی سنجیدہ نہ تھا

دیکھ کر ہر بار الگ حیرت ہوئی
ورنہ تیرا حسن نادیدہ نہ تھا

سنگ تیرے پل بِتانے تھے مجھے
مسئلہ اتنا تو پیچیدہ نہ تھا،

لاش خود بتاتی تھی قاتل کا پتہ
ہم سے تیرا جرم پوشیدہ نہ تھا

ڈھل چکا تھا حسن اس گلفام کا،
پر وجودِ عشق بوسیدہ نہ تھا

شکریہ
 
میرے خیال میں مطلع کچھ اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔

سنگ تیرے پل بِتانے تھے مجھے
مسئلہ اتنا تو پیچیدہ نہ تھا،
محض ’’پل بتانے‘‘ سے بات میں وزن پیدا نہیں ہورہا۔ چند پل یا کچھ پل ہونا چاہیئے یہاں پر اگر وزن میں آسکے۔


لاش خود بتاتی تھی قاتل کا پتہ
ہم سے تیرا جرم پوشیدہ نہ تھا
پہلے مصرعے میں غالباً ٹائپو رہ گیا ہے، جس کی وجہ سے وزن خراب ہو رہا ہے۔
لاش خود دیتی تھی قاتل کا پتہ

دعاگو،
راحلؔ
 

الف عین

لائبریرین
سر الف عین محمّد احسن سمیع :راحل:

جب بچھڑنے پر وہ نم دیدہ نہ تھا
تو یہ سچ ہے ، میرا گرویدہ نہ تھا

وہ محبت اک دکھاوا تھی فقط
میں کسی کا بھی پسندیدہ نہ تھا

آج ایسا زندگی میں کیا ہوا
میں کبھی بھی اتنا رنجیدہ نہ تھا

وقت نے اس کا بنا ڈالا مذاق
زندگی سے جو بھی سنجیدہ نہ تھا

دیکھ کر ہر بار الگ حیرت ہوئی
ورنہ تیرا حسن نادیدہ نہ تھا

عمر تیرے نام کرنی تھی مجھے
مسئلہ اتنا تو پیچیدہ نہ تھا،

دے رہی تھی لاش قاتل کا پتہ
ہم سے تیرا جرم پوشیدہ نہ تھا

ڈھل چکا تھا حسن اس گلفام کا،
پر وجودِ عشق بوسیدہ نہ تھا
 
ماشاء اللہ.

مطلع کا خیال عمدہ ہے اب، بس بندش کچھ اور چست ہوسکتی ہے.
میرے خیال میں زندگی سے کی بجائے زندگی میں ہونا چاہیئے. باقی اب استاد محترم ہی بتائیں گے :)
 
میرے خیال میں مطلع کچھ اور پیچیدہ ہوگیا ہے۔


محض ’’پل بتانے‘‘ سے بات میں وزن پیدا نہیں ہورہا۔ چند پل یا کچھ پل ہونا چاہیئے یہاں پر اگر وزن میں آسکے۔



پہلے مصرعے میں غالباً ٹائپو رہ گیا ہے، جس کی وجہ سے وزن خراب ہو رہا ہے۔
لاش خود دیتی تھی قاتل کا پتہ

دعاگو،
راحلؔ


دیکھ کر ہر بار الگ حیرت ہوئی

راحل بھائی اس مصرعے کی تقطیع تو کر دیجیئے گا مجھے اس کے وزن کی سمجھ نہیں آئی کیا فاعلتن بھی فاعلاتن کے وزن پہ مستعمل ہے
 
ماشاء اللہ.

مطلع کا خیال عمدہ ہے اب، بس بندش کچھ اور چست ہوسکتی ہے.
میرے خیال میں زندگی سے کی بجائے زندگی میں ہونا چاہیئے. باقی اب استاد محترم ہی بتائیں گے
جناب آپ نے بہت خوبصورتی سے جائزہ لیا ہے. میں یہاں نیا ہوں اگر آپ کے پاس وقت ہوا تو میں بھی ضرور آپ سے اصلاح کروائوں گا!!!!
 
دیکھ کر ہر بار الگ حیرت ہوئی

راحل بھائی اس مصرعے کی تقطیع تو کر دیجیئے گا مجھے اس کے وزن کی سمجھ نہیں آئی کیا فاعلتن بھی فاعلاتن کے وزن پہ مستعمل ہے

فاعلاتن ... دے ک کر ہر
فاعلاتن ... با رلگ حے
فاعلن... رت ہُ ای

یہاں دراصل "ہر بار الگ" میں الگ کا الف بار کے ر کے ساتھ وصال ہو رہا ہے (یعنی یعنی با+رَ+لگ تقطیع ہوگی)، جو کہ عروض میں بالکل جائز ہے. واللہ اعلم.

فاعلتن کو فاعلاتن کے قائم مقام کرنے کا جواز میرے علم نہیں، بظاہر تو یہ درست معلوم نہیں ہوتا.
 
فاعلاتن ... دے ک کر ہر
فاعلاتن ... با رلگ حے
فاعلن... رت ہُ ای

یہاں دراصل "ہر بار الگ" میں الگ کا الف بار کے ر کے ساتھ وصال ہو رہا ہے (یعنی یعنی با+رَ+لگ تقطیع ہوگی)، جو کہ عروض میں بالکل جائز ہے. واللہ اعلم.

فاعلتن کو فاعلاتن کے قائم مقام کرنے کا جواز میرے علم نہیں، بظاہر تو یہ درست معلوم نہیں ہوتا.

راحل بھائی مجھے اس تقطیع کی سمجھ نہیں آ رہی
مجھے یہ واضح کر دیں کہ اگر پہلے دو حرف متحرک ہوں تو ان میں سے پہلا حرف گرا سکتے ہیں جیسے اس مصرعہ میں اَلَگ کا الف گرایا گیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
راحل بھائی مجھے اس تقطیع کی سمجھ نہیں آ رہی
مجھے یہ واضح کر دیں کہ اگر پہلے دو حرف متحرک ہوں تو ان میں سے پہلا حرف گرا سکتے ہیں جیسے اس مصرعہ میں اَلَگ کا الف گرایا گیا ہے
پھر سے راحل کی کی ہوئی تقطیع دیکھو۔ اصول یہ یے کہ حرف علت ا، و اور ی ہی گرایے جا سکتے ہیں۔ اور عام طور پر لفظ کے آخر میں استثنا کے طور پر پہلا حرف بھی جو متحرک ہو، اور اس سے پچھلا حرف ساکن ہو جیسے بار کی ر ساکن تھی، اور الگ کا الف متحرک۔ اس لئے الف گرایا جا سکتا ہے اور تقطیع 'رلگ' سے ہو گی
 
مدیر کی آخری تدوین:
پھر سے راحل کی کی ہوئی تقطیع دیکھو۔ اصول یہ یے کہ حرف علت ا، و اور ی ہی گرایے جا سکتے ہیں۔ اور عام طور پر لفظ کے آخر میں استثنا کے طور پر پہلا حرف بھی جو متحرک ہو، اور اس سے پچھلا حرف ساکن ہو جیسے بار کی ر ساکن تھی، اور الگ کا الف متحرک۔ اس لئے الف گرایا جا سکتا ہے اور تقطیع 'رلگ' سے ہو گی

شکریہ سر
 
Top