غزل برائے

سعید احمد

محفلین
مت پوچھ اے ہمدم احوالِ شبِ غم
کیسے شبِ ہجراں کو کرتے ہیں سحر ہم

ہم نے تو جہاں بھر کے طبیبوں سے نہ پایا
اس درد کا چارہ اس زخم کا مرہم

ساقی کی مریدی ہے شبِ غم کے سبب ورنہ
کہاں رندوں کی محفل کہاں جام کہاں ہم

بن آگ دکھائے جل اٹھا اچانک
گھر کا وہ شجر تھا جو میرے درد کا محرم

دل درد سے اب بھی بسمل ہے سعید
پر رونا تڑپنا ہے پہلے سے مگر کم
 

سعید احمد

محفلین
محترم جناب الف عین صاحب
آپ سے گزارش ہے کہ تنقیدی تبصروں کے ساتھ اصلاحی تبصرے بھی عنایت فرمائیں تاکہ میں اپنی غلطیوں کی اصلاح کر سکوں ۔
شکریہ
 
آخری تدوین:

راشد ماہیؔ

محفلین
محترم اصلاح یہی ہے کہ
پہلے باقاعدگی سے سیکھیے
علم ِ عروض کے بہت سے مضامین یہاں اور دیگر سائٹس پہ پڑے ہیں
ان سے استفادہ کیجیے
کوئی مشکل کام نہی ہےاتنا
دوسرے شعرا کے کلام کی خود سے زیادہ سے زیادہ تقطیع کیجیے۔۔۔
جیسے وارث جی فرماتے ہیں:

دراصل شعر کہنے کا عمل تین حصوں پر مشتمل ہے، شعر کہنا، شعر بنانا اور شعر توڑنا اور انکی ترتیب اس ترتیب سے بالکل الٹ ہے جس ترتیب سے میں نے انہیں لکھا ہے، اور وجہ یہ کہ ہر شاعر فوری طور پر شعر کہنے پر پہنچتا ہے اور بے وزن شعر کہہ کر خواہ مخواہ تنقید کا سامنا کرتا ہے، حالانکہ یہ سارا عمل، ایک شاعر کیلیے، شعر توڑنے سے شروع ہوتا ہے، جب کسی کو شعر توڑنا آ جاتا ہے تو ایک درمیانی عرصہ آتا ہے جس میں وہ شعر 'بناتا' ہے اور اسی کو مشقِ سخن کہا جاتا ہے اور جب کسی شاعر کو شعر کہنے میں درک حاصل ہو جاتا ہے تو پھر وہ جو شاعری کرتا ہے اسی کو صحیح معنوں میں 'شاعری' کہا جاتا ہے پھر اسکے ذہن میں شعر کا وزن نہیں ہوتا بلکہ خیال آفرینی ہوتی ہے۔


اب شعر توڑنا جسے علمِ عروض کی اصطلاح میں تقطیع کرنا کہا جاتا ہے، اور تقطیع کا مطلب بذاتِ خود قطع کرنا، پارہ پارہ کرنا، ٹکڑے کرنا ہے، وہی عروض کی کلید ہے، کنجی ہے، اگر کسی کو شعر توڑنا یا تقطیع کرنا آ گیا تو یوں سمجھیں کہ اسے شعر بنانا بھی آ گیا اور بنانے کے بعد یقیناً اگلا مرحلہ شعر کہنا بہت دور نہیں ہے۔

آپ انکے مضامین عروض، شاعری اور ویب سائٹ کے استعمال پر مضامین - عروض پر پڑھ سکتے ہیں
جو ابتدا کے لیے بہت آسان ہیں۔
 

سعید احمد

محفلین
جنابِ محترم راشد ماہی صاحب
معلومات فراہم کرنے کا بہت بہت شکریہ
اب ان مضامین کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد ہی کچھ نیا آپ حضرات کی نذر کرنے کی جسارت کروں گا
جزاک اللہ
 
Top