غزل برائے تنقید و تبصرہ و اصلاح

مانی عباسی

محفلین
بہاریں یاد کرتے ہیں وطن کا نام لیتے ہیں
جنوں کے دشت والے اب چمن کا نام لیتے ہیں
سکھائے کون ان کو بزم کے آداب جو اکثر
سجی محفل میں ختمِ انجمن کا نام لیتے ہیں
اکیلے گھومے تنہائی تو دل میں درد ہوتا ہے
یہی تو ہے جو آئے تو سخن کا نام لیتے ہیں
پتنگوں نے سکھا دی ہے وفا ہم عاشقوں کو بھی
ہم اب ذکرِ اگن سن کے لگن کا نام لیتے ہیں
بھروسہ زندگی کا کچھ محبت میں نہیں ہوتا
ہو آنکھوں سے تصادم تو کفن کا نام لیتے ہیں
مہکتے پھول کی یارو نزاکت دیکھ کر اکثر
دبا کر لب ہم اک شیریں بدن کا نام لیتے ہیں
ہے ملکِ رنگ پے اِنکی حکمرانی مگر مانی
گل و تتلی بھی اُنکے پیرہن کا نام لیتے ہیں.....
 

الف عین

لائبریرین
مطلع سمجھ میں نہیں آیا۔
تیسرا شعر بھی ایضاً
ہم اب ذکرِ اگن سن کے لگن کا نام لیتے ہیں
اگن ہندوستانی فلموں کے گانوں کا لفظ ہے، درست ہندی میں بھی اگنی ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ فارسی ترکیب میں اضافت نہیں لگائی جا سکتی۔
ہو آنکھوں سے تصادم تو کفن کا نام لیتے ہیں
تصادم؟
ہے ملکِ رنگ پے اِنکی حکمرانی مگر مانی
گل و تتلی بھی اُنکے پیرہن کا نام لیتے ہیں
÷÷پہلا مصرع بحر سے خارج کہ حکمرانی کا تلفظ درست نپیں۔دوسرے میں "گل و تتلی" میں فارسی کی واو عطف کا استعمال غلط ہے کہ تتلی ہندی لفظ ہے۔ اس کو یوں کر دو
ہے ملک رنگ پر ان کی حکومت، مان لو مانی
کہ پھول اور تتلی ان کے پیرہن۔۔۔۔۔
باقی کا پہلے تم خود تبدیلی کا سوچو
 

مانی عباسی

محفلین
مطلع سمجھ میں نہیں آیا۔
تیسرا شعر بھی ایضاً
ہم اب ذکرِ اگن سن کے لگن کا نام لیتے ہیں
اگن ہندوستانی فلموں کے گانوں کا لفظ ہے، درست ہندی میں بھی اگنی ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ فارسی ترکیب میں اضافت نہیں لگائی جا سکتی۔
ہو آنکھوں سے تصادم تو کفن کا نام لیتے ہیں
تصادم؟
ہے ملکِ رنگ پے اِنکی حکمرانی مگر مانی
گل و تتلی بھی اُنکے پیرہن کا نام لیتے ہیں
÷÷پہلا مصرع بحر سے خارج کہ حکمرانی کا تلفظ درست نپیں۔دوسرے میں "گل و تتلی" میں فارسی کی واو عطف کا استعمال غلط ہے کہ تتلی ہندی لفظ ہے۔ اس کو یوں کر دو
ہے ملک رنگ پر ان کی حکومت، مان لو مانی
کہ پھول اور تتلی ان کے پیرہن۔۔۔ ۔۔
باقی کا پہلے تم خود تبدیلی کا سوچو


شکریہ سر جی ۔۔۔۔۔۔۔بہت جلد اس غزل کو دوبارہ سے لکھ کے آپ کو زحمت دوں گا ۔۔۔۔۔۔کافی خامیاں ہیں ابھی اس میں.۔۔۔۔
 

مانی عباسی

محفلین
الف عین
سر اب کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟؟؟؟​


بہاریں یاد کرتے ہیں وطن کا نام لیتے ہیں
جنوں کے دشت والے اب چمن کا نام لیتے ہیں

مزارِ آس پے جب بھی چراغِ دل جلاتے ہیں
ہم آنچل ساتھ رکھتے ہیں کفن کا نام لیتے ہیں

مہکتے پھول کی یارو نزاکت دیکھ کر اکثر
دبا کر لب ہم اک شیریں بدن کا نام لیتے ہیں

بتِ یادِ صنم یوں تیشۂِ غم سے تراشا کہ
یہ کوزہ گر ادب سے کوہکن کا نام لیتے ہیں

ہے ملکِ رنگ کس کی حکمرانی میں، بتا مانی
گل و تتلی تو اُن کے پیرہن کا نام لیتے ہیں.....
 

مانی عباسی

محفلین
گل و بُلبُل تو اُن کے پیرہن کا نام لیتے ہیں؟؟؟؟

شکریہ بھائی جان ۔۔۔بلبل سے زیادہ تتلی صحیح نہیں لگ رہا؟؟؟؟؟ یہاں اصل میں رنگینی سے تعلق ظاہر کرنا ہے اور میری رائے میں تو بلبل استعمال کرنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع درست، اور تیسرا شعر بھی۔ اگرچہ ابلاغ کا مسئلہ دونوں میں باقی ہے۔
دوسرا درست
چوتھے میں ’کہ‘ کو ‘ہے‘ سے بدل دو تو دو حرفی والا سقم بھی نہیں رہتا۔
آخری مقطع درست تو ہو گیا لیکن گل اور تتلی بھی اتنا اچھا نہیں لگ رہا اس کو بھی الفاظ بدلنے کی کوشش کرو، مثلاً
ہے ملک رنگ و بو کس راج میں مانی، کہ ہر تتلی
چمن کے پھول سب اس پیرہن۔۔
اگرچہ مجوزہ شعر بھی کوئی خاص نہیں، محض مثال ہے
 

مانی عباسی

محفلین
آخری مقطع درست تو ہو گیا لیکن گل اور تتلی بھی اتنا اچھا نہیں لگ رہا اس کو بھی الفاظ بدلنے کی کوشش کرو، مثلاً
ہے ملک رنگ و بو کس راج میں مانی، کہ ہر تتلی
چمن کے پھول سب اس پیرہن۔۔
اگرچہ مجوزہ شعر بھی کوئی خاص نہیں، محض مثال ہے

سوچتا ہوں اس پر.۔۔۔۔ویسے کافی سوچنے کے بعد لکھا تھا یہ شعر۔۔:)
 

شوکت پرویز

محفلین

الف عین

لائبریرین
بتِ یادِ صنم یوں تیشۂِ غم سے تراشا ہے
کہ کوزہ گر ادب سے کوہکن کا نام لیتے ہیں

اب صحیح ہے ؟؟؟؟؟؟
"کہ کوزہ گر" میں بھی کاف کی تکرار نا خوش گوار محسوس ہوتی ہے۔ یہاں 'یہ' ہی رہنے دو، یوں'پہلے مصرع میں واضح کر دیتا ہے کہ اسی کی وضاحت کی جا رہی ہے
 
Top