غزل برائے تبصرہ و تنقید

برائے مہربانی اساتذہ کرام توجہ فرمائیں۔یہ میری زندگی کی پہلی کاوش ہے ۔اس سے پہلے میں نے کبھی ایک شعر بھی نہیں کہا ہے اس لئے مذاق مت بنائیے گا پلیز۔بہت ڈرتے ڈرتے پوسٹ کر رہا ہوں۔​
غزل
کہا ہے جو تم نے،غزل چھیڑتے ہیں
جہانِ محبت کے در کھل رہے ہیں

ادھر ڈھونڈتے ہیں ادھر ڈھونڈتے ہیں
اسے دل میں پا کر بھی حیران سے ہیں

کہ جیسے گگن میں اڑی ہوں پتنگیں
یوں دل کے پھپھولوں کو ہم پھوڑتے ہیں

بہاریں بھی لہراتی ہیں، جھومتی ہیں
نشیمن میں جب وہ نظر آ گئے ہیں

یہ کشتیِ دل ڈول جاتی ہے، جب وہ
برائے تبسم جو لب کھولتے ہیں

وہ آنکھیں بھی ملتی ہیں، کچھ بولتی ہیں
مگر جانے ہم بھاگنے کیوں لگے ہیں

وہ چپکے سے آتی ہے اور بولتی ہے
تو لوگوں کے کانوں میں رس گھل رہے ہیں

فضاوں میں آہوں کا دم ٹوٹتا ہے
یوں ہی تو ہم اب یہ جگہ چھوڑتے ہیں

بیاضوں میں جیسے کہ رلتے ہیں موتی
علم کے قلم کیا غزل لکھ گئے ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ بہت خوب اصلاحی بھائی۔۔۔۔!

یہ آپ کی پہلی غزل ہے یقین نہیں آتا۔ ہماری طرف سے بہت سی داد قبول کیجے۔

باقی نقد و نظر کا کام تو اساتذہ کا ہے۔
 
برائے مہربانی اساتذہ کرام توجہ فرمائیں۔یہ میری زندگی کی پہلی کاوش ہے ۔اس سے پہلے میں نے کبھی ایک شعر بھی نہیں کہا ہے اس لئے مذاق مت بنائیے گا پلیز۔بہت ڈرتے ڈرتے پوسٹ کر رہا ہوں۔​
غزل
کہا ہے جو تم نے،غزل چھیڑتے ہیں
جہانِ محبت کے در کھل رہے ہیں

ادھر ڈھونڈتے ہیں ادھر ڈھونڈتے ہیں
اسے دل میں پا کر بھی حیران سے ہیں

کہ جیسے گگن میں اڑی ہوں پتنگیں
یوں دل کے پھپھولوں کو ہم پھوڑتے ہیں

بہاریں بھی لہراتی ہیں، جھومتی ہیں
نشیمن میں جب وہ نظر آ گئے ہیں

یہ کشتیِ دل ڈول جاتی ہے، جب وہ
برائے تبسم جو لب کھولتے ہیں

وہ آنکھیں بھی ملتی ہیں، کچھ بولتی ہیں
مگر جانے ہم بھاگنے کیوں لگے ہیں

وہ چپکے سے آتی ہے اور بولتی ہے
تو لوگوں کے کانوں میں رس گھل رہے ہیں

فضاوں میں آہوں کا دم ٹوٹتا ہے
یوں ہی تو ہم اب یہ جگہ چھوڑتے ہیں

بیاضوں میں جیسے کہ رلتے ہیں موتی
علم کے قلم کیا غزل لکھ گئے ہیں
 
بھائی اصلا حی صاحب ۔میں فنی اعتبار اس غزل پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکوں گا،کیوں کہ شاعری میرے بس کا روگ نہیں ہے ، البتہ ایک سوال آپ سے یہ ہے کہ بھلا بتائیں تو سہی یہ اچانک آپ کو کیا ہو گیا ، کسی "غزل " کے دام فریب میں گرفتار تو نہیں ہو گئے ہیں ، اشعار میں آپکی بے تابی و بیقراری سے تو یہی تاثر ظاہر ہو تا ہے ۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
"پورے اساتذہ" بھی یقینا تبصرہ کریں گے۔ "آدھے استاد" کا تبصرہ حاضر ہے۔(طالب علم پرائویٹ میسج میں کھُل کر کھیلنے کی اجازت دے چکا ہے۔ اس لیے جارحانہ انداز کو کمینگی نہ سمجھا جائے)۔

سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ حیرت انگیز طور پر پہلی غزل ہی وزن میں ہے۔ کبھی ایسا نہیں دیکھا۔ مجھے تو مہینے لگے تھے اس میں۔ لگتا ہے کہ آپ طویل عرصے سے شعر پڑھتے رہے ہیں مگر لکھنے کی ابتدا کرنے میں دیر کی۔ وزن والا فائدہ تو خوب ہوا۔

شعر بہ شعر تفصیل یا اصلاح میں نہ جاؤں گا کہ یہ کام "پورے اساتذہ" کاہے۔ میری نظر میں غور طلب امور یہ ہیں:

1۔ قافیہ با لکل بے رنگ ہے۔ اسی کے سبب مطلع یوں لگتا ہے کہ جیسے دو مختلف غزلوں کے مطالع جوڑ کر بنایا گیا ہو۔مزید براں قافیے کے انتخاب نےغزل میں نغمگی پیدا نہیں ہونے دی۔
2۔ "یوں دل کے پھپھولوں" میں واو گر رہا ہے۔قطعی نا مناسب ہے۔ شاید اساتذہ اصلاح فرما دیں۔
3۔ یہ کشتیِ دل ڈول جاتی ہے، جب وہ --- برائے تبسم جو لب کھولتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں "جب" آ گیا تو دوسرے مصرعے کا "جو" زائد ہوا۔ دوسری بات، لب تو بات کرنے کے لیے کھولے جاتے ہیں۔

4۔ بیاضوں میں جیسے کہ رلتے ہیں موتی، علم کے قلم کیا غزل لکھ گئے ہیں۔ "رُلنے" میں تو "منفیت" پنہاں ہے ،تحسین کہاں سے ہوئی؟ اور پھر پہلی ہی غزل میں تعلّی کا مضمون؟ کیا اور باتیں ختم ہو گئی تھیں؟

5۔ میری خواہش ہو گی کہ تخلص کچھ اور ہو۔ "علم" بر وزنِ قلم، الم بمعنی غم کا ہم آواز ہوا۔ سن کر یہی ذہن میں آتا ہے کہ "الم" تخلص ہو گا۔

باقی یہ کہ مختصر ترین تبصرہ کرتا تو یہی کہتا: "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات"۔ مزید کام ضرور کیجیے گا۔
 
یہ کشتیِ دل ڈول جاتی ہے، جب وہ​
برائے تبسم ہی لب کھولتے ہیں​

وہ آنکھیں ہیں ملتی، بہانے بہانے
مگر جانے ہم بھاگنے کیوں لگے ہیں​

وہ چپکے سے آتی ہے اور بولتی ہے
تو لوگوں کے کانوں میں رس گھل رہے ہیں
اس شعر میں جمع کا صیغہ؟؟ کوئی اُستاد ہی روشنی ڈال سکتا ہے، رس گھل رہے ہیں؟

فضاوں میں آہوں کا دم ٹوٹتا ہے
یوں ہی تو ہم اب یہ جگہ چھوڑتے ہیں
یہ شعر ابلاغ نہیں کر پایا

باقی بہت عمدہ غزل ہوئی جناب، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 
خوب غزل ہے۔ میرا موقف بھی کاشف عمران بھائی والا ہے۔ اکثر باتوں میں متفق ہوں سوائے ایک آدھ بات کے۔ پہلی تو یہ کہ 'یوں' سے واؤ کا گرنا مجھے کوئی معیوب نہیں لگا۔
دوسرا یہ کہ قافیہ کا استعمال بہت ہی ماہرانہ انداز کا ہے۔
 
محمدعلم اللہ اصلاحی ۔۔
بہت خوب! یہ آپ کی پہلی کوشش، بہتوں کی بہت بعد کی کوششوں سے بہتر ہے۔ فنی حوالوں سے جناب کاشف عمران، جناب مزمل شیخ بسمل اور جناب محمد اظہر نذیر کے ارشادات پر توجہ دیجئے گا۔

یہ اندازہ آپ سے ابتدائی گفتگو میں ہو گیا تھا، کہ آپ کا مطالعہ (بطورِ خاص ادب کے حوالے سے) خاصا وسیع ہے۔ یہ پہلا قدم اٹھا لیا ہے تو استقلال کے ساتھ آگے بڑھئے۔ اپنا ایک شعر، آپ کی نذر کرتا ہوں، اگرچہ آپ ایسے بے سر و ساماں بھی نہیں:۔
چلو، آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں​
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے​
۔۔۔۔۔۔۔۔
 
محمدعلم اللہ اصلاحی ۔۔
بہت خوب! یہ آپ کی پہلی کوشش، بہتوں کی بہت بعد کی کوششوں سے بہتر ہے۔ فنی حوالوں سے جناب کاشف عمران، جناب مزمل شیخ بسمل اور جناب محمد اظہر نذیر کے ارشادات پر توجہ دیجئے گا۔

یہ اندازہ آپ سے ابتدائی گفتگو میں ہو گیا تھا، کہ آپ کا مطالعہ (بطورِ خاص ادب کے حوالے سے) خاصا وسیع ہے۔ یہ پہلا قدم اٹھا لیا ہے تو استقلال کے ساتھ آگے بڑھئے۔ اپنا ایک شعر، آپ کی نذر کرتا ہوں، اگرچہ آپ ایسے بے سر و ساماں بھی نہیں:۔
چلو، آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں​
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

بہت بہت شکریہ بھائی جان:chill:
ضرور
یہ تو آپ لوگوں کی نوازشیں ہیں ۔۔۔۔آپ کا قیمتی شعر میرے لئے سرمایہ حیات ہے ۔۔۔۔اور بھائی جان اتنا بھی وسیع نہیں ہے۔۔۔۔ ہاں!! شوق ضرور ہے اور آپ جیسے علم دوست بھائیوں کی رفاقت کے سبب یہ ہوا ہے جس پر مجھے فخر ہے ۔۔۔۔آپ کے شعر سے مجھے ایک شعر یاد آیا جسے تقریبا 6 ÷7 سال قبل ۔۔۔۔ایک آپ ہی جیسے چاہنے والے نے۔۔۔۔ میری ڈائری میں ٹھیک ویسے ہی ۔۔۔۔جیسے میرے لئے نذر کیا انھوں نے بھی مجھے ہی نذر کیا تھا ۔انھوں نے کہا تھا :
لکھو ! کچھ لکھو !! اور لکھتے رہو
کہ جب تک قلم میں ترے جان ہے
(سخنور رفیقی)
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
محمدعلم اللہ اصلاحی ۔۔
بہت خوب! یہ آپ کی پہلی کوشش، بہتوں کی بہت بعد کی کوششوں سے بہتر ہے۔ فنی حوالوں سے جناب کاشف عمران، جناب مزمل شیخ بسمل اور جناب محمد اظہر نذیر کے ارشادات پر توجہ دیجئے گا۔

یہ اندازہ آپ سے ابتدائی گفتگو میں ہو گیا تھا، کہ آپ کا مطالعہ (بطورِ خاص ادب کے حوالے سے) خاصا وسیع ہے۔ یہ پہلا قدم اٹھا لیا ہے تو استقلال کے ساتھ آگے بڑھئے۔ اپنا ایک شعر، آپ کی نذر کرتا ہوں، اگرچہ آپ ایسے بے سر و ساماں بھی نہیں:۔
چلو، آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں​
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
دھاگے گا موضوع اگرچہ کچھ اور ہے۔ مگر آپ نے آخر میں ایسا غضب کا شعر "دے مارا" ہے کہ خاموش نہ رہا گیا۔ محمد یعقوب آسی صاحب، شعر پرڈھیروں مبارک باد۔ آج شاید بڑے زمانے بعد کسی شعر پر ایسا پھڑکا ہوں۔

نئے لکھنے والے، خصوصاً اس دھاگے کے دولھا میاں محمدعلم اللہ اصلاحی، نوٹ فرمائیں کہ محض "لڑکی کی ایک ٹانگ"(ترکیب بشکریہ مشتاق یوسفی) ہی شاعری کا موضوع نہیں۔ اصل شاعری تو اکثر ہوتی ہی تب ہے جب لڑکی ختم اور "انسان" شروع۔ بہتر ہو گا کہ محمدعلم اللہ اصلاحی صاحب ہماری نصیحتوں پر کم کم اور اس شعر پر زیادہ غور کریں۔ خوب فائدہ اٹھائیں گے۔

ایسا لطف تو غالب کا "حکا یاتِ خونچکاں" والا شعر پڑھ کر آیا تھا۔ کمال کر دیا۔
 
کاشف عمرانبھائی جان !!اڑ لیجے مذاق:)
ایسےفرما تو درست رہے ہیں آپ اور
محمد یعقوب آسیبھائی جان بھی​
لیکن شاعری کا محرک سچ مچ وہی ہے جو آپ لوگ سمجھے ۔آگے کچھ اور لکھتا لیکن یہاں اساتذہ بھی ہیں اس لئے نہیں
ہاں آپ لوگوں کا شکریہ تو کرنا بھول ہی گیا ۔خاص کر کاشف عمران بھائی جان کا ۔۔:)
 

عزیز آبادی

محفلین
برائے مہربانی اساتذہ کرام توجہ فرمائیں۔یہ میری زندگی کی پہلی کاوش ہے ۔اس سے پہلے میں نے کبھی ایک شعر بھی نہیں کہا ہے اس لئے مذاق مت بنائیے گا پلیز۔بہت ڈرتے ڈرتے پوسٹ کر رہا ہوں۔​
غزل
کہا ہے جو تم نے،غزل چھیڑتے ہیں
جہانِ محبت کے در کھل رہے ہیں

ادھر ڈھونڈتے ہیں ادھر ڈھونڈتے ہیں
اسے دل میں پا کر بھی حیران سے ہیں

کہ جیسے گگن میں اڑی ہوں پتنگیں
یوں دل کے پھپھولوں کو ہم پھوڑتے ہیں

بہاریں بھی لہراتی ہیں، جھومتی ہیں
نشیمن میں جب وہ نظر آ گئے ہیں

یہ کشتیِ دل ڈول جاتی ہے، جب وہ
برائے تبسم جو لب کھولتے ہیں

وہ آنکھیں بھی ملتی ہیں، کچھ بولتی ہیں
مگر جانے ہم بھاگنے کیوں لگے ہیں

وہ چپکے سے آتی ہے اور بولتی ہے
تو لوگوں کے کانوں میں رس گھل رہے ہیں

فضاوں میں آہوں کا دم ٹوٹتا ہے
یوں ہی تو ہم اب یہ جگہ چھوڑتے ہیں

بیاضوں میں جیسے کہ رلتے ہیں موتی
علم کے قلم کیا غزل لکھ گئے ہیں
بہت خوب۔۔ اساتذہ کرام آپکی کاوش پر بہتر رائے دئے سکتے ہیں۔ لیکن آپکی کاوش غزل کی ٹیکنیک پر اُترنے سے قاصر ہے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کاشف عمرانبھائی جان !!اڑ لیجے مذاق:)
ایسےفرما تو درست رہے ہیں آپ اور
محمد یعقوب آسیبھائی جان بھی​
لیکن شاعری کا محرک سچ مچ وہی ہے جو آپ لوگ سمجھے ۔آگے کچھ اور لکھتا لیکن یہاں اساتذہ بھی ہیں اس لئے نہیں
ہاں آپ لوگوں کا شکریہ تو کرنا بھول ہی گیا ۔خاص کر کاشف عمران بھائی جان کا ۔۔:)

نہیں مذاق ہر گز نہیں اڑایا۔ اور شکریہ ادا کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ سب کرنے میں ہماری اپنی خود غرضی بھی شامل ہوتی ہے۔ وہ ایسے کہ نوجوانوں سے بات کر کے ہم بھی خود کو ٹین ایجر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ "لڑکی کی ایک ٹانگ" پر بھی کچھ زیادہ دفاعی پوزیشن لینے کی ضرورت نہیں، کہ اقبال جیسے "مولانا" شاعر تک "وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ" کہہ گئے ہیں۔ اور میں "عورت ذات" کے اتنا خلاف بھی نہیں۔یقین نہ آئے تو میرے نئے نویلے فیس بک پیج کا رنگ ڈھنگ ہی دیکھ لو۔
 
نہیں مذاق ہر گز نہیں اڑایا۔ اور شکریہ ادا کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ سب کرنے میں ہماری اپنی خود غرضی بھی شامل ہوتی ہے۔ وہ ایسے کہ نوجوانوں سے بات کر کے ہم بھی خود کو ٹین ایجر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ "لڑکی کی ایک ٹانگ" پر بھی کچھ زیادہ دفاعی پوزیشن لینے کی ضرورت نہیں، کہ اقبال جیسے "مولانا" شاعر تک "وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ" کہہ گئے ہیں۔ اور میں "عورت ذات" کے اتنا خلاف بھی نہیں۔یقین نہ آئے تو میرے نئے نویلے فیس بک پیج کا رنگ ڈھنگ ہی دیکھ لو۔
اور علامہ شبلی جو عطیہ پر فدا تھے ۔۔۔:chill:
 
دھاگے گا موضوع اگرچہ کچھ اور ہے۔ مگر آپ نے آخر میں ایسا غضب کا شعر "دے مارا" ہے کہ خاموش نہ رہا گیا۔​
محمد یعقوب آسی​
صاحب، شعر پرڈھیروں مبارک باد۔ آج شاید بڑے زمانے بعد کسی شعر پر ایسا پھڑکا ہوں۔​

آہا، بھیا کاشف عمران، آپ کو پتہ بھی ہے یہاں حالات کیسے ہیں، اور آپ پھڑکانے کی بات کر رہے ہیں۔ ستم، ستم ستم!!۔
یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا۔ اس شعر کی اس قدر پسند آوری پر میرا آداب قبول فرمائیے۔
 
Top