غزل برائے اصلا ح

محمد ا حمد

محفلین
چپ ہی سہی لیکن زباں میں بھی رکھتا ہوں
کہ لحن لوگوں کے اب میں بھی سمجھتا ہوں
دلِ ویراں تجھےآباد کر بھی تو سکتا ہوں
مگر مقاصدِ زندگی اوربھی کئ رکھتا ہوں
مکینِ دل تجھے شاد کر بھی تو سکتا ہوں
لیکن تیری ناشاد، صبحِ کل سے ڈرتا ہوں
تاریک راہوں پہ اب بھی چلتا رہتا ہوں
کہ گمانِ سحر ہمیشہ زندہ رکھتا ہوں
بے بس ہوں تیری رسوائ چا ہتا نہیں
ورنہ داستانِ وصل، بیاں کر بھی تو سکتا ہوں
انسان ہوں دردِ دل میں بھی رکھتا ہوں
کہ بت اپنے میں روح تو تیری رکھتا ہوں
بے بس ہی سہی لیکن مجبور میں بھی نہیں احمد
شکوہ یار، جواب کی ہمت میں بھی رکھتا ہوں
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
نوٹ: میں نیا لکھا ری ہوں۔ ہو سکتا ہے اس میں کئ غلطیاں ہوں، لکھی بھی اس لیے ہے کے غلطیوںکا ازالہ ہو سکے۔ اور کچھ سیکھا جا سکے۔
ازراہِ کرم غلطیوں کی نشا ند ہی کر دیں۔ شکر یہ-
-------------------------------------------------------------------------------------------------------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ایک اور محمد احمد کو خوش آمدید (دوسرے محمداحمد ہیں۔مگر آپ کا نام درست دونوں ناموں کے درمیان سپیس دے کر لکھا گیا ہے)
جیسا کہ مشورہ دیا جا چکا ہے کہ عروض کو سمجھیں۔ عروض کے مطابق یہ غلطیاں خود ہی سمجھ میں آ جائیں گی کہ۔۔۔
غزل مں محض مطلع میں دونوں مصرعوں میں قوافی ہوتے ہیں، س کے علاوہ کسی شعر میں نہیں۔ یہاں صرف ایک ’شعر‘ میں قوافی نہیں۔
اور درست تو یہ ہے کہ یہ قوافی ہیں ہی نہیں!۔ صرف’ تا ہوں‘ سے قوافی نہیں ہو جاتے۔ جاتا، آتا قافیہ ہو سکتا ہے، سکتا اور مہکتا ہو سکتا ہے، اور چلتا، بدلتا مگر چلتا اور آتا قوافی نہیں ہو سکتے۔
اور سب سے ضروری بات یہ کہ یہ وزن میں ہیں ہی نہیں تو کس طرح اصلاح دے سکتا ہے کوئی!!
 

محمد ا حمد

محفلین
الف عین یہ تصیح شدہ غزل برائے کرم دیکھ لیں۔

خموشی ہی سہی لیکن زباں بھی رکھتا ہوں
کہ لحن لوگوں کے اب میں بھی سمجھتا ہوں
اے دلِ ویراں تجھے شاد کرتا تو کیسے
کہ تیری افسردہ صبحِ کل سے ڈرتا ہوں
مدت ہوئی مجھے اندھیرے رستوں پہ چلتے
مگر گمانِ سحر اب بھی زندہ رکھتا ہوں
بے بس ہوں تیری رسوائی جو نہیں منظور
سو اب نگر تیرا میں چھوڑ سکتا ہوں
بشر ہوں میں بھی مجھے دردِ دل بھی کیوں نہ ہو
کہ جسم اپنے میں روحِ یار رکھتا ہوں
بے بس ہوں لیکن مجبور میں نہیں احمد
تو پھر میں رسمِ الفت بھی چھوڑ دیتا ہوں
-------------------------------------------------------------------------------------​
 

الف عین

لائبریرین
اب بھی وہی بات ہے جو میں نے کہی تھی۔
قوافی بھی درست نہیں ہیں۔ اور بحر میں بھی نہیں ہیں اشعار
 
Top