غزل برائے اصلاح

دل ہی قتیلِ لذتِ اخفائے حال ہے
مجھ پر بھی میری بات سمجھنا محال ہے

گو گردشِ زمانہ سواری کمال ہے
دستِ تغیرات سے دل پائمال ہے

ہر لحظہ نورِ دیدہ فزوں تر ہے ہو رہا
اب تیرگی بھی آئے نظر خال خال ہے

وہ محشرِ خیال کہ عقبیٰ کہیں جسے
دامِ خیال اک درِ دامِ خیال ہے

سچ ہے کہ ہر عروج کو آخر میں ہے زوال
ہاں جز زوالِ ما کہ جو بس لازوال ہے

آہیں مری ہوئی ہیں خلا و ملا گداز
یوں اب کے وقتِ سوختنِ ماہ و سال ہے

یوں سوچ کا سمجھ کا سفر دائرے میں ہے
ہر شے بس ایک دوسری شے کی مثال ہے

ریحان مست اپنے خیالات ہی میں رہ
"عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے"
 

الف عین

لائبریرین
بڑی استادانہ غزل ہے ماشاء اللہ۔
بس
ہر لحظہ نورِ دیدہ فزوں تر ہے ہو رہا
اب تیرگی بھی آئے نظر خال خال ہے
دونوں مصرعوں میں محاورے کا خلاف اچھا نہیں لگ رہا۔ ’ہے ہو رہا‘ اور ’آئے نظر خال خال‘ کی وجہ سے۔
 
بڑی استادانہ غزل ہے ماشاء اللہ۔
بس
ہر لحظہ نورِ دیدہ فزوں تر ہے ہو رہا
اب تیرگی بھی آئے نظر خال خال ہے
دونوں مصرعوں میں محاورے کا خلاف اچھا نہیں لگ رہا۔ ’ہے ہو رہا‘ اور ’آئے نظر خال خال‘ کی وجہ سے۔
ہر لحظہ نورِ دیدہ ہوا جائے ہے فزوں
سو تیرگی بھی آئے نظر خال خال ہے

کیا یوں درست ہو جائے گا؟
 
Top