غزل برائے اصلاح

السلام علیکم۔ امید ہے کہ آپ سب دوست خیریت سے ہونگے۔​
یہ ووسری غزل ہے۔ تمام اساتذہ کرام اور احباب سے گزارش ہے کہ جس طرح پہلے غزل پر تنقید و تبصرے سے رہنمائی کی اسی طرح اس پر بھی اپنی آراء سے نوازیں۔ جزاکم اللہ خیر۔​

چراغِ آسماں میں جو برابر آگ جلتی ہے
کسی مہتاب خاتونِ فلک کی چال لگتی ہے

جو پی کر جام عرفاں کے بہک جائے پھسل جائے
اسے لعنت شرابوں کی ہزاروں بارلگتی ہے

جہنم میں پڑا ہے تو یہ واعظ سوچتا ہو گا
کسی بائیں فرشتے کی یہ مجھ کو چال لگتی ہے

بڑے خوش تھے، ملے تھے تم جو آغازِ محبت میں
یہ کیا بیتی؟ کہ اب صورت بڑی ویران لگتی ہے

اسے معلوم ہے انجام الفت کا مگر پھر بھی
وہ میرے ساتھ جلتی ہے، وہ میرے ساتھ لگتی ہے

نگاہوں میں جو بادہ ہے کبھی خیرات ہی کر دو
نظر کے مستحق ہیں ہم ہمیں خیرات لگتی ہے

وہ ناداں باعثِ ذلت ہیں اے حافظ کہ جن کو یہ
زوالِ آدمِ خاکی ذرا سی بات لگتی ہے
 
جلتی اور لگتی درست قوافی نہیں ان میں ایطائے جلی ہے۔ مطلع کے سوا باقی تمام غزل میں ایک ہی قافیے کا استعمال بھی اچھا نہیں۔
چراغِ آسماں میں جو برابر آگ جلتی ہے
کسی مہتاب خاتونِ فلک کی چال لگتی ہے
اچھا ہے۔
وہ ناداں باعثِ ذلت ہیں اے حافظ کہ جن کو یہ
باعثِ ذلت کس کے لیے؟
 
جلتی اور لگتی درست قوافی نہیں ان میں ایطائے جلی ہے۔

تبصرے کا شکریہ۔ سر قوافی میں اس قسم کی مسائل سے متعلق کوئی کتاب یا مضمون مل سکتا ہے؟ تاکہ میں اس کا مطالعہ کر کے ان غلطیوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کروں۔
مزید یہ کہ اگر میں مطلع کو یوں کر دوں کہ
’’چراغِ آسماں میں جو برابر آگ لگتی ہے
کسی مہتاب خاتونِ فلک کی چال لگتی ہے‘‘
تو اس سے فنی اعتبار سے غزل میں کیا نقص پیدا ہوگا؟

باعثِ ذلت کس کے لیے؟

یعنی جو آدمی پر اس دور میں مجموعی طور پر ایک زوال آیا ہوا ہے۔ جو لوگ اسے ہلکا سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کرتے نہیں وہ لوگ اس زوال میں کسی نہ کسی طرح حصہ دار ہیں۔

آپ احباب کی بدولت بہت سیکھنے کو مل رہا ہے۔ اللہ پاک آپ کو اس کا اعلیٰ اجر عطاء فرمائے۔ آمین۔
 
سر قوافی میں اس قسم کی مسائل سے متعلق کوئی کتاب یا مضمون مل سکتا ہے؟ تاکہ میں اس کا مطالعہ کر کے ان غلطیوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کروں۔
علمِ قافیہ
تو اس سے فنی اعتبار سے غزل میں کیا نقص پیدا ہوگا؟
قافیہ غزل کا اہم جزو ہے جس کے بغیر غزل کہی نہیں جا سکتی۔
یعنی جو آدمی پر اس دور میں مجموعی طور پر ایک زوال آیا ہوا ہے۔ جو لوگ اسے ہلکا سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کرتے نہیں وہ لوگ اس زوال میں کسی نہ کسی طرح حصہ دار ہیں۔
کم از کم میں تو یہ معنی اس شعر سے اخذ نہیں کر پاؤں گا۔
 
Top