غزل برائے اصلاح

پیار میں تیرے جو پائے آنسو
مدتوں سب سے چھپائے آنسو

آسماں تاروں سے خالی پاکر
رات بھر میں نے سجائے آنسو

میرے ہاتھوں سے پیا جامِ عشق
اور مجھے تو نے پلائے آنسو

یاد کو تیری بچانے کے لئے
خوشی سے ہم نے گنوائے آنسو

بے بسی، اپنی کا جب آیا خیال
خون کے خود کو رلائے آنسو

اچھا ہو، وہ دے کے کالی چادر
قبر میری پہ بہائے آنسو

لب مرے تر ہو گئے آخر، جب
چل دیے تیرے ستائے آنسو

تیری جھولی میں بچا کیا، منصور
با ادب میں نے دکھائے آنسو

محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم راحیل فاروق صاحب
محترم محمد ریحان قریشی صاحب
محترم کاشف اسرار احمد صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب

اور دیگر اساتذہ کرام اور احباب ۔ اصلاح کے لئے غزل حاضر ہے
 
آخری تدوین:
پیار میں تیرے جو پائے آنسو
مدتوں سب سے چھپائے آنسو
ایطا کا سقم ہے
مطلب یہ کہ دونو قوافی میں "پائے" مشترک ہے جبکہ باقی قوافی میں ایسا نہیں


آسماں تاروں سے خالی پاکر
رات بھر میں نے سجائے آنسو
"تاروں" کا "تار" کی طرح ادا کرنا اچھا نہیں لگ رہا، "روں" دو حرفی ہے، یک حرفی نہ کریں۔

میرے ہاتھوں سے پیا جامِ عشق
اور مجھے تو نے پلائے آنسو
پہلے مصرعے میں "جامِ" بالکل "جامے" ہو گیا، "جامِ وفا" ہوتا تو وزن پر پورا اترتا
"اور" کو "ار" کی طرح ادا کرنا درست نہیں


یاد کو تیری بچانے کے لئے
خوشی سے ہم نے گنوائے آنسو
ایک تو اس شعر کا مطلب سمجھ نہیں آیا (میری نالائقی)
اور دوسرے یہ کہ خوشی وزن کے مطابق نہیں۔ یک حرفی + دو حرفی ہو گیا جب کہ وزن کے مطابق دو حرفی + یک حرفی ہونا چاہیئے۔


بے بسی، اپنی کا جب آیا خیال
خون کے خود کو رلائے آنسو
روانی کے لئے پہلا مصرعہ یوں کیا جا سکتا ہے
بے بسی دیکھ کے اپنی ہم نے
"دیکھ کے" میں عیبِ تنافر کا امکان تو ہے لیکن میرا خیال ہے کہ "ھ" کی موجودگی میں یہ امکان کم ہو جانا چاہیئے، اساتذہ روشنی فرمائیں۔

اچھا ہو، وہ دے کے کالی چادر
قبر میری پہ بہائے آنسو
"اچھا" میں "الف" کا گرنا اچھا نہیں۔ دے کے کالی چادر؟ لے کے نہیں ہونا چاہیئے؟
خوب ہو، لے کے وہ کالی چادر
قبر پر میری بہائے آنسو


لب مرے تر ہو گئے آخر، جب
چل دیے تیرے ستائے آنسو
روانی اور ابلاغ دونوں کی کمی ہے، دوبارہ دیکھیں

تیری جھولی میں بچا کیا، منصور
با ادب میں نے دکھائے آنسو
درست
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب منصور صاحب ۔
پیار میں تیرے جو پائے آنسو
یہاں آنسو پانا کچھ خلاف محاورہ ہے جبکہ مصرع کے اسلوب سے اس کو موافق نہ کیا جائے ، اسے آنسو آنا کیا جاسکتا ہے جو قافیہ اور محاورہ کو درست کرتا ہے۔
یاد کو تیری بچانے کے لئے​
خوشی سے ہم نے گنوائے آنسو​
یہاں خوشی سے کے بجائے ، اپنی مرضی سے گنوائے آنسو ۔بہتر ہو،اگر چہ معنوی اور تخیلاتی طور پر شعر کچھ کمزور ہے۔اور یاد کو تیری کی جگہ تیری یادوں کو کیا جاسکتا ہے ۔روانی بہتر کرنے کے لیے
بے بسی، اپنی کا جب آیا خیال
یہاں بھی الفاظ کی نشست کمزور ہے بہتر ہونا چاہیئے ۔مثلا آیا جب اپنی بے بسی کاخیال۔اس طرح کچھ بہتر ہوگا۔
اچھا ہو، وہ دے کے کالی چادر
یہاں بھی الفاظ کی نشست کمزور ہے بہتر ہونا چاہیئے مثلا،
اچھا ہو، دے کے وہکالی چادر ۔ مگر شعر مجموعی طور پر کچھ ہلکا بھی ہے۔
لب مرے تر ہو گئے آخر، جب
چل دیے تیرے ستائے آنسو
راجہ صاحب کی رائے۔
تیری جھولی میں بچا کیا، منصور
با ادب میں نے دکھائے آنسو
مقطع کا خیال اچھ اہے لیکن اسلوب سے اور چمک سکتا ہے۔آنسو دکھانا بامحاورہ نہیں۔
معمولی مذکورات کے باوجود اچھی غزل پیش کی ہے ۔​
 
بہت خوب منصور صاحب ۔

یہاں آنسو پانا کچھ خلاف محاورہ ہے جبکہ مصرع کے اسلوب سے اس کو موافق نہ کیا جائے ، اسے آنسو آنا کیا جاسکتا ہے جو قافیہ اور محاورہ کو درست کرتا ہے۔

یہاں خوشی سے کے بجائے ، اپنی مرضی سے گنوائے آنسو ۔بہتر ہو،اگر چہ معنوی اور تخیلاتی طور پر شعر کچھ کمزور ہے۔اور یاد کو تیری کی جگہ تیری یادوں کو کیا جاسکتا ہے ۔روانی بہتر کرنے کے لیے

یہاں بھی الفاظ کی نشست کمزور ہے بہتر ہونا چاہیئے ۔مثلا آیا جب اپنی بے بسی کاخیال۔اس طرح کچھ بہتر ہوگا۔

یہاں بھی الفاظ کی نشست کمزور ہے بہتر ہونا چاہیئے مثلا،
اچھا ہو، دے کے وہکالی چادر ۔ مگر شعر مجموعی طور پر کچھ ہلکا بھی ہے۔

راجہ صاحب کی رائے۔

مقطع کا خیال اچھ اہے لیکن اسلوب سے اور چمک سکتا ہے۔آنسو دکھانا بامحاورہ نہیں۔
معمولی مذکورات کے باوجود اچھی غزل پیش کی ہے ۔​


پیار میں تیرے جو پائے آنسو
مدتوں سب سے چھپائے آنسو
ایطا کا سقم ہے
مطلب یہ کہ دونو قوافی میں "پائے" مشترک ہے جبکہ باقی قوافی میں ایسا نہیں


آسماں تاروں سے خالی پاکر
رات بھر میں نے سجائے آنسو
"تاروں" کا "تار" کی طرح ادا کرنا اچھا نہیں لگ رہا، "روں" دو حرفی ہے، یک حرفی نہ کریں۔

میرے ہاتھوں سے پیا جامِ عشق
اور مجھے تو نے پلائے آنسو
پہلے مصرعے میں "جامِ" بالکل "جامے" ہو گیا، "جامِ وفا" ہوتا تو وزن پر پورا اترتا
"اور" کو "ار" کی طرح ادا کرنا درست نہیں


یاد کو تیری بچانے کے لئے
خوشی سے ہم نے گنوائے آنسو
ایک تو اس شعر کا مطلب سمجھ نہیں آیا (میری نالائقی)
اور دوسرے یہ کہ خوشی وزن کے مطابق نہیں۔ یک حرفی + دو حرفی ہو گیا جب کہ وزن کے مطابق دو حرفی + یک حرفی ہونا چاہیئے۔


بے بسی، اپنی کا جب آیا خیال
خون کے خود کو رلائے آنسو
روانی کے لئے پہلا مصرعہ یوں کیا جا سکتا ہے
بے بسی دیکھ کے اپنی ہم نے
"دیکھ کے" میں عیبِ تنافر کا امکان تو ہے لیکن میرا خیال ہے کہ "ھ" کی موجودگی میں یہ امکان کم ہو جانا چاہیئے، اساتذہ روشنی فرمائیں۔

اچھا ہو، وہ دے کے کالی چادر
قبر میری پہ بہائے آنسو
"اچھا" میں "الف" کا گرنا اچھا نہیں۔ دے کے کالی چادر؟ لے کے نہیں ہونا چاہیئے؟
خوب ہو، لے کے وہ کالی چادر
قبر پر میری بہائے آنسو


لب مرے تر ہو گئے آخر، جب
چل دیے تیرے ستائے آنسو
روانی اور ابلاغ دونوں کی کمی ہے، دوبارہ دیکھیں

تیری جھولی میں بچا کیا، منصور
با ادب میں نے دکھائے آنسو
درست

اب دوبارہ دیکھیے ۔ اپنی مرضی سے نہ جانے کیوں مجھے بھا نہیں رہا ۔

اب دیکھیے

عشق میں تیرے جو آئے آنسو
مدتوں سب سے چھپائے آنسو

تیرے چہرے کے تبسم کے لیے
پلکوں پہ اپنی سجائے آنسو

جامِ الفت تھا کیا پیش تجھے
پر مجھے تو نے پلائے آنسو

تیری یادوں کو بچانے کے لیے
خوشی سے میں نے گنوائے آنسو

اپنی لاچاری کا جب آیا خیال
خون کے خود کو رلائے آنسو

خوب ہو، لے کے وہ کالی چادر
قبر میری پہ بہائے آنسو

آگئے لب پہ، کہاں اب جاتے
کب کے یہ تیرے ستائے آنسو

کیسی یہ زندگی گزری منصور
خود پہ بس میں نے گرائے آنسو
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک قاری کی حیثیت سے اپنی خیالات بتانا چاہ رہی ہوں ، چونکہ اصلاح سُخن بھی ہے ، اپنی رائے بھی ہے ،

عشق میں تیرے جو آئے آنسو
مدتوں سب سے چھپائے آنسو

عشق کو ہٹا کے اگر ہجر کردیں تو پھر بھی بات کچھ مُناسب رہے گی ۔۔ آنسو کی تشبیہ سراسر غلط ہے ، آنسو چھپائے جو جاتے ہیں وہ زخمِ دل کہے جاسکتے اور ایک مصرعے میں لگ رہا کہ آنکھ سے آنسو بہ رہے ہیں دوسرے میں چھپ رہے ہیں ۔

تیرے چہرے کے تبسم کے لیے
پلکوں پہ اپنی سجائے آنسو

مجھے تو آنسو کا سجنا بھی کچھ معنی خیز نہیں لگ رہا

جامِ الفت تھا کیا پیش تجھے
پر مجھے تو نے پلائے آنسو

آنسو کون پلاتا ہے ؟ اس کا محاورہ بن نہیں رہا ۔

تیری یادوں کو بچانے کے لیے
خوشی سے میں نے گنوائے آنسو

یادوں کو بچایا نہیں جاتا ، یادیں تو جان نہیں چھوڑتیں ، خوشی سے گنوانا مراد یعنی کہ آنسو ہیرے کی مانند ہیں

اپنی لاچاری کا جب آیا خیال
خون کے خود کو رلائے آنسو

کس قدر ظالم ہیں آپ !!!

خوب ہو، لے کے وہ کالی چادر
قبر میری پہ بہائے آنسو

اففف، بددعا ! ایسا نہ کریں ، غضب ہوجائے گا

آگئے لب پہ، کہاں اب جاتے
کب کے یہ تیرے ستائے آنسو

آنسو محبوب کے ، آپ کے لب ، واہ کیا خوب کہا!!!!
کیسی یہ زندگی گزری منصور
خود پہ بس میں نے گرائے آنسو

غالبا اندر گرانا مراد ہے آپ کی ، آپ کو اپنے اظہار کے لیے مناسب لفظ نہیں مل رہے ہیں ، آپ محفل پر موجود شعراء کا کلام پڑھیں ، یعنی سیر حاصل تراکیب و استعارے اور محاورات آپ کے تخییل کو وسعت دیں گے
 
آپ کی داد و رائے کا بہت بہت شکریہ

عشق کر لیں یا ہجر کر لیں ۔ آنسو خود بتا رہے کہ عشق میں برا حال ہے۔ آنسو چھپانے کا مقصد تنہائی میں گریہ گری ہے

پلکوں پہ آنسو سجانا، آنسو کے بہہ جانے سے چند لمحے قبل کی کیفیت کا بیان ہے

آنسو گنوائے سے مراد آنسو کا ہیرے موتی ہونا ہی ہے ۔ یاد بچانے سے مراد یاد تازہ رکھنا تھا ۔

آنسو گرانا تو محارہ ہے یعنی ماتم کرنا ۔ ساری زندگی ماتم ہی کیا اپنا !!

آنسو کو جو کچھ ہو سکتا تھا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
 
اب دوبارہ دیکھیے ۔ اپنی مرضی سے نہ جانے کیوں مجھے بھا نہیں رہا ۔

اب دیکھیے

عشق میں تیرے جو آئے آنسو
مدتوں سب سے چھپائے آنسو

تیرے چہرے کے تبسم کے لیے
پلکوں پہ اپنی سجائے آنسو

جامِ الفت تھا کیا پیش تجھے
پر مجھے تو نے پلائے آنسو

تیری یادوں کو بچانے کے لیے
خوشی سے میں نے گنوائے آنسو

اپنی لاچاری کا جب آیا خیال
خون کے خود کو رلائے آنسو

خوب ہو، لے کے وہ کالی چادر
قبر میری پہ بہائے آنسو

آگئے لب پہ، کہاں اب جاتے
کب کے یہ تیرے ستائے آنسو

کیسی یہ زندگی گزری منصور
خود پہ بس میں نے گرائے آنسو
بہت خوب، ماشاءاللہ بہت بہتری آگئی ہے غزل میں، بہت ساری داد قبول فرمائیں۔
جہاں جہاں ضروری تھا استادِ محترم محمد ریحان قریشی نے اصلاح فرما دی ہے، مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں۔
سلامت رہیں۔


 
Top