غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم۔۔۔۔۔ محفلیں ۔۔۔ ایک غزل پیش خدمت ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے شکرگزار ہوں گا ۔۔۔۔
غزل
جگر کا زخم چلو آج یوں سیا جائے
بھلا چکے تھے جنہیں یاد ہی کیا جائے
انہیں یقین دلانا وفا کا مشکل ہے
کلیجہ ان کی ہتھیلی پہ رکھ دیا جائے
تمہارے عشق نے بخشی ہیں نعمتیں مجھ کو
دوا بھی زہر بھی آنسو بھی کیا پیا جائے
وفا کے نام پہ مرنا ہمیں بھی آتا ہے
مزہ تو جب ہے جدا ہو کے بھی جیا جائے
مرے خیال کی دنیا سے یوں گزرتا ہے
وہ جیسے ہاتھ میں لے کر کوئی دیا جائے
سنا ہے عشق عبادت ہے دل سے کرتے ہیں
میں سوچتا ہوں ترا نام ہی لیا جائے
گیا ہے نور ترے گھر کے سب چراغوں سے
خدا کرے نہ ستارو کی ضیا جائے

شہنواز نور
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ

انہیں یقین دلانا وفا کا مشکل ہے
کلیجہ ان کی ہتھیلی پہ رکھ دیا جائے
÷÷کس کا کلیجہ؟ یہ تو واضح کرو، مضبوب کا کلیجہ نکال کر رکھ دو گے تو اسے تو تمہارے ظلم و ستم کا یقین آئے گا، نہ کہ وفا کا!!!!!

تمہارے عشق نے بخشی ہیں نعمتیں مجھ کو
دوا بھی زہر بھی آنسو بھی کیا پیا جائے
۔۔بیانیہ میں چستی کی کمی ہے، ’بھی‘ کی وجہ سے۔ اس کی جگہ ’ہو‘ کر کے دیکھو۔ یعنی
دوا ہو، زہر ہو، آنسو ہو، کیا پیا جائے
باقی درست ہی ہے
 

شہنواز نور

محفلین
بیحد ممنون ہوں سر ۔۔۔۔۔۔ آپ کی جانب سے جو کمی بتائی گئی ہے وہ میں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ ایک بار پھر دلی شکریہ
 
Top