غزل برائے اصلاح

جناب الف عین اور دیگر اساتذہ اکرام آپ سے اصلاح کی گذارش ہے۔

فاعلاتن مفاعلن فِع
دل کی جو یہ فغاں ہے یاروں
اک بحرِ بے کراں ہے یاروں
خواہشِ دید تو ہے لیکن
فاصلے درمیاں ہے یاروں
آ کے اب پاس منزلوں کے
لمحہ بھی اک گراں ہے یاروں
دردِ دل کو چھپاؤں کیسے
چہرے سے جو عیاں ہے یاروں
پہلے جو تھا قرار ہم میں
قربتیں وہ کہاں ہے یاروں
اجنبی تو ہے اور میں دشمن
ایسا ہی اب گماں ہے یاروں
کب ہمیں تھی عزیز دنیا
اپنا اور ہی جہاں ہے یاروں
کیا کہوں ہر نظر میں اس کی
اک نیا امتحاں ہے یاروں
دشت ہے دل اور آنکھوں میں اب
حسرتِ گلستاں ہے یاروں
رو دیے تھے جسے وہ سن کے
میری ہی داستاں ہے یاروں
 
ریحان بھائی بہت شکریہ نشاندہی کے لیے۔ اصل میں اس معاملے میں ابھی ہاتھ تنگ ہے۔ اشعار تو جو ذہن میں آتے ہیں لکھ لیتا ہوں پھر تقطیع اور بحر کی نشاندہی کے لیے عروض کا استعمال کرتا ہوں۔
ایسی غیرمانوس بحر کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں، اشعار تبدیل کر لیے جائیں کسی مانوس بحر کے مطابق؟
 
ریحان بھائی بہت شکریہ نشاندہی کے لیے۔ اصل میں اس معاملے میں ابھی ہاتھ تنگ ہے۔ اشعار تو جو ذہن میں آتے ہیں لکھ لیتا ہوں پھر تقطیع اور بحر کی نشاندہی کے لیے عروض کا استعمال کرتا ہوں۔
ایسی غیرمانوس بحر کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں، اشعار تبدیل کر لیے جائیں کسی مانوس بحر کے مطابق؟
فاعلاتن مفاعلن فعلن مانوس بحر ہے۔
اگر قوافی نون منقوطہ کے ساتھ کر دیے جائیں تو زمین بدلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
مثلاََ
میری ہی داستان ہے یارو
باقی مصرعے بھی اسی بحر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔
 
جناب محمد ریحان قریشی صاحب جیسا آپ نے فرمایا اشعار کو تبدیل کر کے مانوس بحر میں لکھ دیا ہے۔ املا کی کچھ غلطیاں تھیں وہ بھی درست کر دی ہیں۔
محترم الف عین صاحب آپ سے بھی اصلاح کی گذارش ہے۔

فاعلاتن مفاعلن فعلن
دل کی جو یہ فغاں ہے جانِ جاں
اک بحرِ بے کراں ہے جانِ جاں
خواہشِ دید ہے ہم کو لیکن
فاصلہ درمیاں ہے جانِ جاں
سامنے جب ہو اپنی منزل تو
لمحہ بھی اک گراں ہے جانِ جاں
دردِ دل کو چھپاؤں اب کیسے
چہرے سے جو عیاں ہے جانِ جاں
جو لگاؤ تھا انھیں بھی پہلے
قرب وہ اب کہاں ہے جانِ جاں
اجنبی تو ہے اور میں ہوں دشمن
ایسا ہی اب گماں ہے جانِ جاں
کب ہمیں تھی عزیز دنیا یہ
اپنا اور ہی جہاں ہے جانِ جاں
کیا کہوں ہر نظر میں اس کی تو
اک نیا امتحاں ہے جانِ جاں
ویراں ہے دل اور آنکھوں کو میری
حسرتِ گلستاں ہے جانِ جاں
رو دیے تھے جسے وہ بھی سن کر
میری ہی داستاں ہے جانِ جاں
 

الف عین

لائبریرین
تقطیع درست نہیں کر رہے شاید۔ کچھ تو فاعلاتن فعلاتن فعلن میں تقطیع ہو رہے ہیں، جو ایک دوسری ہی بحر ہے۔ جیسے
خواہشِ دید ہے ہم کو لیکن
یہ یوں ہونا چاہئے۔
خواہشِ دید ہے ہمیں لیکن
خواہشِ دی۔ فاعلاتن ، د ہے ہمے۔مفاعلن، لیکن۔ فعلن
ان مصرعوں میں بھی وہی مسئلہ ہے
جو لگاؤ تھا انھیں بھی پہلے
اجنبی تو ہے اور میں ہوں دشمن

اک بحرِ بے کراں ہے جانِ جاں
یہ کسی بحر میں نہیں ہے۔
اس کے علاوہ، کچھ اشعار میں ’یارو‘ ردیف ہی بہتر لگتی ہے۔ کچھ اشعار میں محبوب کو صیغہ واحد غائب کہا گیا ہے، اس کا خطاب ’جانِ جاں‘ سے کیوں؟
کچھ الفاظ کی نشست بدل کر خود ہی دیکھیں۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔
کب ہمیں تھی عزیز دنیا یہ
اس کو
کب ہمیں تھی عزیز یہ دنیا
کہنے میں کیا مانع تھا؟
میرا مشورہ اسی لئے اکثر ہوتا ہے کہ شعر کہہ کر کچھ وقت گزاریں۔ خود ہی بہتری کے گر سوجھ جائیں گے۔
 
بہت مہربانی محترم جناب الف عین صاحب۔
تقطیع درست نہیں کر رہے شاید۔ کچھ تو فاعلاتن فعلاتن فعلن میں تقطیع ہو رہے ہیں، جو ایک دوسری ہی بحر ہے۔ جیسے
جی بالکل تقطیع میں مار کھا رہا ہوں۔ ویسے اپنے طور پر تقطیع سے متعلق جو مضامین فورم پر موجود ہیں یا دوسری لڑیوں میں جو آپ نے اور دوسرے اساتذہ نے اصلاح کر رکھی ہے اس کا بھی مطالعہ کر رہا ہوں۔ امید ہے انشااللہ آپ کا دست شفقت رہے گا تو جلد سیکھ جاوں گا۔

میرا مشورہ اسی لئے اکثر ہوتا ہے کہ شعر کہہ کر کچھ وقت گزاریں۔ خود ہی بہتری کے گر سوجھ جائیں گے۔
جی بہت بہتر، ویسے کوشش ہوتی ہے کے لکھنے کے بعد پانچ، چھے دفعہ خود اس کو پڑھوں۔ اس میں بھی کچھ مصرعے ایسے ہیں جن کو تقریبا تین سے چار مرتبہ تبدیل کیا ہے۔ شائد ابھی تقطیع اور تلفظ میں کچھ دشواری ہے اسی لیے ایسی غلطیاں سرزد ہو رہی ہے۔ آپ کی راہنمائی کا شکریہ میں دوبارہ سے اس پر کوشش کرتا ہوں۔
 
جناب محترم الف عین صاحب دوبارہ کوشش کی ہے، اسی مضمون پر ایک نئی بحر میں اشعار بن پائیں ہیں۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے

مفعولن فاعلن فعولن
دل میں آہ و فغاں ہے یارو
اک بحرِ بے کراں ہے یارو
یہ دل ہے ویراں اور نظر میں
اک حسرتِ گلستاں ہے یارو
ان سے اب کیا گلہ کریں ہم
دم آخر یہ گراں ہے یارو
کیجئے کیا غمِ دل کا صاحب
چہرے سے جو عیاں ہے یارو
گزری حسرت میں عمر ساری
خواہش بھی اب کہاں ہے یارو
ہوتا دیدار بھی مگر یہ
چشمِ نم درمیاں ہے یارو
سچے ہوتے ہیں خواب سارے
ایسا ہی کچھ گماں ہے یارو
ہم کو دنیا عزیز کب تھی
اپنا اور ہی جہاں ہے یارو
ان کی ہر اک نظر میں پنہاں
کتنے ہی امتحاں ہے یارو
سن کر جس کو وہ رو دیے تھے
میری ہی داستاں ہے یارو
 

الف عین

لائبریرین
اب بہتر ہو گئی ہے غزل۔ اسی طرح مشق کرتے رہو تو مزید بہتری کے مشورے بھی دئے جائیں گے۔ میں یا اور کوئی تم کو درست مشورے دے سکے گا۔ یہ پہلا مرحلہ ہی دشوار ترین ہے۔
ویسے مبتدی فاعلاتن مفاعلن فعلن سے ہی شروع کریں۔ فاعلاتن فعِلاتن فعلن، یا مفعول مفاعلن فعولن ذرا مشکل بحور ہیں۔ مستند شعراء کو بھی تقطیع کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
 
بہت بہتر جناب محترم الف عین صاحب آپ نے جس طرح فرمایا تھا کے خود ہی اپنے لکھے کو پڑھنے سے کچھ بہتر صورت حال ہو گئی ہے لیکن واقعی یہ ایک محنت طلب کام ہے کیونکہ کچھ مصرعے ایسے ہیں جن کو میں نے تقریباً دس مرتبہ تو لکھا ہوگا بدل بدل کے۔ ایک مرتبہ تو خیال آیا کے اس غزل کو چھوڑ کر کچھ اور لکھتا ہوں۔ پھر سوچا کہ یہ تو ہوم ورک نہ کرنے والی بات ہو جائے گی :)۔
خیر جس طرح آپ نے فرمایا ہے،اب اشعار آسان بحر میں لکھنے کی کوشش کروں گا ۔انشاءاللہ۔
 
Top