غزل برائے اصلاح

غزل

اب مسلماں کو کیا پتا کہ مسلمانی کیا ہے۔
کوئی اندے سے ذرا پوچھو کہ بینائی کیا ہے۔

کرتا تھا میرا دل ہمہ تن خدا سے فریاد۔
حقیقت کو دیکھ کر واقف ہوا عریبی کیا ہے۔

میرے دل نے کیا محبت کا اظہار جا بہ جا۔
مگر اسے کیا پتا کے لذتِ شیدائی کیا ہے۔

یہ سارے تو بے وفا ہیں نہ جائے ان کےپہچے۔
اِن سب کو نہیں معلوم رشتہِ دلگی کیا ہے۔

پتا تھا اُن سب کو اہمیتِ حکمت کا ۔
اِن کو کیا تمیز کے پھلواری کیا ہے۔

رکھتا ہے عابد رابطہ ہمشہ خدا سے۔
اِس نہیں علم کے بے نیازی کیا ہے۔

اے سیلّان لگا کے دل رکھ خدا سے ہمشہ۔
وگرنہ نہیں آشنا تم کے دین میں رسوائی کیا ہے۔
 
Top