غزل برائے اصلاح

عاطف ملک

محفلین
پرانی ڈائری کی تحریر چند تبدیلیوں کے ساتھ پیشِ نظر ہے۔
اساتذہ کرام بالخصوص محترم الف عین اور اہلِ محفل سےتنقید و اصلاح کی درخواست ہے۔

سنا ہے یہ کہ شہرِ ناز میں محشر بپا ہو گا
کسی سنگدل کی خاطر آج اک عاشق فنا ہو گا
مِرا دعویٰ تھا جاں بھی وار دوں گا اس کی الفت میں
سنو! اس سے بچھڑ کر آج یہ وعدہ وفا ہو گا
جسے چاہا تھا تو نے وہ بھی آخر نکلا ہرجائی
تیرے دل پر بھی تو ظالم کوئی خنجر چلا ہو گا
کسی کے ہجر میں کیا وہ تڑپتا ہو گا راتوں میں؟
کسی کی چاند میں تصویر وہ بھی ڈھونڈتا ہو گا؟
بہاروں نے تسلی دی تھی جس کو لوٹ آنے کی
شجر وہ آج بھی اک دشت میں تنہا کھڑا ہو گا
یہاں تو زور چلتا ہے تیرا ہر اک عدالت پر
دہائی دوں گا میں اس دن، کہ جب منصف خدا ہو گا
یہ عاطف اب ہوا پاگل یا پہلے سے تھا دیوانہ
مِرے اشعار پڑھ کر وہ بھی شاید سوچتا ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
سنا ہے یہ کہ شہرِ ناز میں محشر بپا ہو گا
کسی سنگدل کی خاطر آج اک عاشق فنا ہو گا
۔۔سنگ دل کا ’گ‘ یا ’د‘ میں سے ایک حرف تقطیع نہیں ہو رہا ہے۔سنگل، یا سندل وزن میں آتا ہے۔ یہ درست نہیں۔

مِرا دعویٰ تھا جاں بھی وار دوں گا اس کی الفت میں
سنو! اس سے بچھڑ کر آج یہ وعدہ وفا ہو گا
۔۔درست
جسے چاہا تھا تو نے وہ بھی آخر نکلا ہرجائی
تیرے دل پر بھی تو ظالم کوئی خنجر چلا ہو گا
۔۔پہلا مصرع روانی کا طالب ہے۔اور دوسرے سے ربط نہیں بیٹھ رہا۔ ’ترے‘ دل پر (’تیرے دل نہیں) بھی تو‘ کا بیانیہ کچھ شرط لگاتا محسوس ہو رہا ہے لیکن اول مصرع میں ایسا کچھ نہیں۔

کسی کے ہجر میں کیا وہ تڑپتا ہو گا راتوں میں؟
کسی کی چاند میں تصویر وہ بھی ڈھونڈتا ہو گا؟
۔۔درست

بہاروں نے تسلی دی تھی جس کو لوٹ آنے کی
شجر وہ آج بھی اک دشت میں تنہا کھڑا ہو گا
۔۔تسلی کا لفظ غلط ہے یہاں۔ بشارت کہنا چاہیے تھا شاید۔ مفہوم بھی مبہم ہے، کہنا یہ چاہا تھا کہ بہاروں نے جس پیڑ کو اپنے لوٹ آنے کی خوشخبری دی تھی، وہ شجر (اک دشت میں کھڑا تو کوئی بھی درخت ہو سکتا ہے، وہی مذکورہ درخت نہیں) اسی امید پر کھڑا ہو گا۔ یہ مفہوم پوری طرح واضح نہیں۔ یہ بھی دوسری بات ہے کہ خزاں میں درخت گرتے نہیں ہیں، محض مرجھا جاتے ہیں، اپنے پتوں سے خالی ہو کر۔

یہاں تو زور چلتا ہے تیرا ہر اک عدالت پر
دہائی دوں گا میں اس دن، کہ جب منصف خدا ہو گا
÷÷درست، یہاں بھی ’ترا‘ بحر میں آتا ہے، مکمل ’تیرا‘ نہیں۔

یہ عاطف اب ہوا پاگل یا پہلے سے تھا دیوانہ
مِرے اشعار پڑھ کر وہ بھی شاید سوچتا ہو گا
۔۔پہلے مصرع کو رواں بناؤ ذرا۔
 

عاطف ملک

محفلین
بہاروں نے تسلی دی تھی جس کو لوٹ آنے کی
شجر وہ آج بھی اک دشت میں تنہا کھڑا ہو گا
۔۔تسلی کا لفظ غلط ہے یہاں۔ بشارت کہنا چاہیے تھا شاید۔ مفہوم بھی مبہم ہے، کہنا یہ چاہا تھا کہ بہاروں نے جس پیڑ کو اپنے لوٹ آنے کی خوشخبری دی تھی، وہ شجر (اک دشت میں کھڑا تو کوئی بھی درخت ہو سکتا ہے، وہی مذکورہ درخت نہیں) اسی امید پر کھڑا ہو گا۔ یہ مفہوم پوری طرح واضح نہیں۔ یہ بھی دوسری بات ہے کہ خزاں میں درخت گرتے نہیں ہیں، محض مرجھا جاتے ہیں، اپنے پتوں سے خالی ہو کر۔
بہت شکریہ استادِ محترم!
دراصل اس شعر کا خیال کچھ یوں ہے کہ خزاں کی آمد پر بہار نے چمن میں لوٹ آنے کی تسلی دی تھی،لیکن چمن صحرا بن گیا مگر بہار نہ لوٹی۔
ابھی بھی ایک شجر اس بہار کے انتظار میں تنہا کھڑا ہے جبکہ باقی سارا چمن ہمت ہار گیا ہے۔شجر اسی لیے استعمال کیا تھا کہ وہ خزاں میں گرتا نہیں ہے۔
اب میرے الفاظ اس مضمون کو باندھنے میں ناکام ہیں اور کچھ حل سجھائی بھی نہیں دے رہا۔

مطلع ایسے کر لوں؟
سنا ہے یہ کہ شہرناز میں محشربپا ہوگا
کسی بے درد کی خاطر کوئی عاشق فنا ہوگا
اک نیا شعر
تِرے کہنے پہ تجھ کو چھوڑ تو دوں حال پر تیرے
یا
تِرے کہنے پہ تجھ کو چھوڑ دوں گا حال پر تیرے
مگر تو نے کبھی سوچا بھی ہے پھر میرا کیا ہو گا؟
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
سنا ہے یہ کہ شہرِ ناز میں محشر بپا ہو گا
کسی سنگدل کی خاطر آج اک عاشق فنا ہو گا
۔۔سنگ دل کا ’گ‘ یا ’د‘ میں سے ایک حرف تقطیع نہیں ہو رہا ہے۔سنگل، یا سندل وزن میں آتا ہے۔ یہ درست نہیں۔

مِرا دعویٰ تھا جاں بھی وار دوں گا اس کی الفت میں
سنو! اس سے بچھڑ کر آج یہ وعدہ وفا ہو گا
۔۔درست
جسے چاہا تھا تو نے وہ بھی آخر نکلا ہرجائی
تیرے دل پر بھی تو ظالم کوئی خنجر چلا ہو گا
۔۔پہلا مصرع روانی کا طالب ہے۔اور دوسرے سے ربط نہیں بیٹھ رہا۔ ’ترے‘ دل پر (’تیرے دل نہیں) بھی تو‘ کا بیانیہ کچھ شرط لگاتا محسوس ہو رہا ہے لیکن اول مصرع میں ایسا کچھ نہیں۔

کسی کے ہجر میں کیا وہ تڑپتا ہو گا راتوں میں؟
کسی کی چاند میں تصویر وہ بھی ڈھونڈتا ہو گا؟
۔۔درست

بہاروں نے تسلی دی تھی جس کو لوٹ آنے کی
شجر وہ آج بھی اک دشت میں تنہا کھڑا ہو گا
۔۔تسلی کا لفظ غلط ہے یہاں۔ بشارت کہنا چاہیے تھا شاید۔ مفہوم بھی مبہم ہے، کہنا یہ چاہا تھا کہ بہاروں نے جس پیڑ کو اپنے لوٹ آنے کی خوشخبری دی تھی، وہ شجر (اک دشت میں کھڑا تو کوئی بھی درخت ہو سکتا ہے، وہی مذکورہ درخت نہیں) اسی امید پر کھڑا ہو گا۔ یہ مفہوم پوری طرح واضح نہیں۔ یہ بھی دوسری بات ہے کہ خزاں میں درخت گرتے نہیں ہیں، محض مرجھا جاتے ہیں، اپنے پتوں سے خالی ہو کر۔

یہاں تو زور چلتا ہے تیرا ہر اک عدالت پر
دہائی دوں گا میں اس دن، کہ جب منصف خدا ہو گا
÷÷درست، یہاں بھی ’ترا‘ بحر میں آتا ہے، مکمل ’تیرا‘ نہیں۔

یہ عاطف اب ہوا پاگل یا پہلے سے تھا دیوانہ
مِرے اشعار پڑھ کر وہ بھی شاید سوچتا ہو گا
۔۔پہلے مصرع کو رواں بناؤ ذرا۔
مزید یہ کہ آپ کے حکم کے موافق غزل کو بہتر کر نے کی کوشش کرتا ہوں۔انشااللہ
 

عاطف ملک

محفلین
استادِ محترم الف عین صاحب!
چند تبدیلیوں کو بعد یہ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جسے چاہا تھا تو نے وہ بھی آخر نکلا ہرجائی
تیرے دل پر بھی تو ظالم کوئی خنجر چلا ہو گا
۔۔پہلا مصرع روانی کا طالب ہے۔اور دوسرے سے ربط نہیں بیٹھ رہا۔ ’ترے‘ دل پر (’تیرے دل نہیں) بھی تو‘ کا بیانیہ کچھ شرط لگاتا محسوس ہو رہا ہے لیکن اول مصرع میں ایسا کچھ نہیں۔
جسے چاہا تھا تو نے، اس نے بھی ٹھکرا دیا تجھ کو
مرا دل توڑنے والے! بتا اب تیرا کیا ہو گا؟

یہ عاطف اب ہوا پاگل یا پہلے سے تھا دیوانہ
مِرے اشعار پڑھ کر وہ بھی شاید سوچتا ہو گا
۔۔پہلے مصرع کو رواں بناؤ ذرا۔
یہ عاطف پہلے سے دیوانہ تھا یا اب ہوا پاگل
یا
یہ پہلے سے دیوانہ تھا، یا عاطف اب ہوا پاگل
مرے اشعار پڑھ کر وہ بھی شاید سوچتا ہو گا
استادمحترم!
میرا خیال ہے کہ اشعار کی "روانی" کو سمجھ نہیں سکا ہوں اب تک۔۔۔۔

بہاروں نے تسلی دی تھی جس کو لوٹ آنے کی
شجر وہ آج بھی اک دشت میں تنہا کھڑا ہو گا
۔۔تسلی کا لفظ غلط ہے یہاں۔ بشارت کہنا چاہیے تھا شاید۔ مفہوم بھی مبہم ہے، کہنا یہ چاہا تھا کہ بہاروں نے جس پیڑ کو اپنے لوٹ آنے کی خوشخبری دی تھی، وہ شجر (اک دشت میں کھڑا تو کوئی بھی درخت ہو سکتا ہے، وہی مذکورہ درخت نہیں) اسی امید پر کھڑا ہو گا۔ یہ مفہوم پوری طرح واضح نہیں۔ یہ بھی دوسری بات ہے کہ خزاں میں درخت گرتے نہیں ہیں، محض مرجھا جاتے ہیں، اپنے پتوں سے خالی ہو کر۔
اس کو یوں کیا ہے
بہاروں نے بشارت دی تھی اک دن لوٹ آنے کی
چمن میں اک شجر اس آس پر تنہا کھڑا ہو گا
ورنہ نکال دیتا ہوں اس شعر کو!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلا شعر درست ہو گیا ہے۔
دوسرے میں روانی در اصل ’یا‘ کو محض ی کر دینے سے پیدا ہوئی ہے۔ مرے خیال میں اصل مصرع میں ہی ’کہ‘ استعمال کرنے سے بہتر ہو جائے گا۔
اور یہ
بہاروں نے بشارت دی تھی اک دن لوٹ آنے کی
چمن میں اک شجر اس آس پر تنہا کھڑا ہو گا

مطلع کی تبدیلی اور آخری مصرع میں مناسب تبدیلی کے حوالے سے رہنمائی تجویز کر دیں تو نوازش ہو گی۔
اب بہتر ہو گیا ہے۔
 
Top