غزل برائے اصلاح

خدا کا خوف کرو کچه تم
خدا کیسے بنے ہو تم
مرے ہیں لوگ وعدے میں
دغا ہر دم بنے ہو تم
مرے دکه پہ دلاسا ہو
مگر ہر دم ہسے ہو تم
بشر خوں میں نہایا ہے
خدا جب جب بنے ہو تم
نظر ہم کو نہیں آتے
بتا قصدا چهپے ہو تم
 

الف عین

لائبریرین
اصول یہ ہے کہ مطلع سے یہ بات مقرر ہوتی ہے کہ زمین کیا ہو گی، یعنی قافیئہ کیا ہے اور ردیف کیا۔ بنے، چھپے قوافی تو درست ہیں، لیکن مطلع میں اس کے قوافی استعمال نہیں ہوئے ہیں!
خدا کا خوف کرو کچه تم
خدا کیسے بنے ہو تم
مرے ہیں لوگ وعدے میں
دغا ہر دم بنے ہو تم
÷÷مطلب واضح نہیں۔ کوئی شخص مجسم دغا بن سکتا ہے؟

مرے دکه پہ دلاسا ہو
مگر ہر دم ہسے ہو تم
۔۔اگر یہ ’ہنسے‘ ہے تو مطلب نکلتا ہے۔ لیکن جہاں مکمل ’پر‘ آ سکے، وہاں ’پہ‘ استعمال کرنا غلط ہے۔ بہتر ہو کہ اسے یوں کہو
مرے دکھ پر دلاسا دو
مگر ہر دم ہنسے ہو تم

بشر خوں میں نہایا ہے
خدا جب جب بنے ہو تم
÷÷ٹھیک

نظر ہم کو نہیں آتے
بتا قصدا چهپے ہو تم
÷÷ شاید یہ ’قصداً‘ ہے۔ لیکن ’بتا‘ کے ساتھ ضمیر ’توُ ہوتی ہے۔ یہاں بات درست کرنے کے لیے ’بتاؤ کیا قصداً‘ ہونا چاہیے۔ ’کیا‘ نہ ہو تو کم از کم سوالیہ نشان ضروری ہے۔ اسے ’کہو، قصداً چھپے ہو تم؟‘ کیا جا سکتا ہے​
 
Top