غزل برائے اصلاح

اکثر مرے زہن میں یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ جو کلام میں رقم کر دیتا ہوں وہ تو چلو اوزان میں تو پورا ہی

  • کیا اوزان کے الاوہ کوئی اور ادبی تقائص ملتے ہیں

    Votes: 0 0.0%
  • یہ کلام موزوں اور مقبول ہے۔

    Votes: 0 0.0%

  • Total voters
    0

حسیب بسمل

محفلین
میں وعدے سبھی عشق کے، جو تھے وہ نبھا چکا ہوں
کھا کے چوٹ اس دل پہ, اپنے سب آزما چکا ہوں

جاناں شبِ آخر، عنایت جو مجھ پہ تم نے کی تھی
وہ ہی یاد ہے اب تلک ، باقی سب بُھلا چکا ہوں

بن کر عشق کا سائل، آیا ہے بے مروّت! نِکل!
باقی کچھ نہی اب، متاعِ جاں میں لُٹا چکا ہوں

شبِ وصل, ضیاء تھی رقصاں، جس جھومتی شمع کی
رُت ِ وصل تو وہ گئی، لَو بھی میں بُجھا چکا ہوں

سن تو یہ ہی ہے وہ کہانی, نا آئی جو سرِ لب
تو نے داستاں جو سنی نا، سب کو سنا چکا ہوں

افسانہ مرا سُن کہ، رو یا ہر کوئی لیکن حسیؔب
اک سنگدل صنم ہے وہ ، جس کو اپنا بنا چکا ہوں

حسیؔب مغل۔۔۔بسمؔل۔۔۔۔
 

عباد اللہ

محفلین
عمدہ کاوش ہے ۔
مفعولاتُ مستفعلن مفعولاتُ مستفعلن
بحرِ مقتضب میں ہے آپ کی یہ غزل لیکن سالم حالت میں اس کا استعمال شاید جائز نہیں​
شبِ وصل, ضیاء تھی رقصاں، جس جھومتی شمع کی
رُت ِ وصل تو وہ گئی، لَو بھی میں بُجھا چکا ہوں
ضیا کا رقص تو شاید قبول کر لیا جائے لیکن جھومتی شمع سے میں آپ کا مطلب نہیں سمجھ سکا
غالب کہتے ہیں "آرزو سے ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے"
اگر جھومتی شمع سے آپ کی مراد کچھ اور ہے تو اس کی وضاحت کیجئے
رتِ وصل ترکیب درست نہیں، ر ۔تے وصل وزن میں بھی نہیں آتا
سن تو یہ ہی ہے وہ کہانی, نا آئی جو سرِ لب
تو نے داستاں جو سنی نا، سب کو سنا چکا ہوں
میرا مطالعہ انتہائی محدود ہے سرِ لب کا لفظ کبھی نظر سے نہیں گزرا
یوں بھی میں اس شعر میں "تو، یہ ،وہ ،نا ،جو " میں الجھ کر رہ گیا ہوں

افسانہ مرا سُن کہ، رو یا ہر کوئی لیکن حسیؔب
اک سنگدل صنم ہے وہ ، جس کو اپنا بنا چکا ہوں
میرے خیال میں سنگ دل بر وزن فاعلن ہے ہے فعلن نہیں
 
آخری تدوین:
Top