حسیب بسمل
محفلین
میں وعدے سبھی عشق کے، جو تھے وہ نبھا چکا ہوں
کھا کے چوٹ اس دل پہ, اپنے سب آزما چکا ہوں
جاناں شبِ آخر، عنایت جو مجھ پہ تم نے کی تھی
وہ ہی یاد ہے اب تلک ، باقی سب بُھلا چکا ہوں
بن کر عشق کا سائل، آیا ہے بے مروّت! نِکل!
باقی کچھ نہی اب، متاعِ جاں میں لُٹا چکا ہوں
شبِ وصل, ضیاء تھی رقصاں، جس جھومتی شمع کی
رُت ِ وصل تو وہ گئی، لَو بھی میں بُجھا چکا ہوں
سن تو یہ ہی ہے وہ کہانی, نا آئی جو سرِ لب
تو نے داستاں جو سنی نا، سب کو سنا چکا ہوں
افسانہ مرا سُن کہ، رو یا ہر کوئی لیکن حسیؔب
اک سنگدل صنم ہے وہ ، جس کو اپنا بنا چکا ہوں
حسیؔب مغل۔۔۔بسمؔل۔۔۔۔
کھا کے چوٹ اس دل پہ, اپنے سب آزما چکا ہوں
جاناں شبِ آخر، عنایت جو مجھ پہ تم نے کی تھی
وہ ہی یاد ہے اب تلک ، باقی سب بُھلا چکا ہوں
بن کر عشق کا سائل، آیا ہے بے مروّت! نِکل!
باقی کچھ نہی اب، متاعِ جاں میں لُٹا چکا ہوں
شبِ وصل, ضیاء تھی رقصاں، جس جھومتی شمع کی
رُت ِ وصل تو وہ گئی، لَو بھی میں بُجھا چکا ہوں
سن تو یہ ہی ہے وہ کہانی, نا آئی جو سرِ لب
تو نے داستاں جو سنی نا، سب کو سنا چکا ہوں
افسانہ مرا سُن کہ، رو یا ہر کوئی لیکن حسیؔب
اک سنگدل صنم ہے وہ ، جس کو اپنا بنا چکا ہوں
حسیؔب مغل۔۔۔بسمؔل۔۔۔۔