غزل - برائے اصلاح

غزل
غیرتِ ملی گر پیشِ نظر ہر تحریر نہیں
بے وقعت ہیں لفظ کوئی توقیر نہیں

جانتا ہوں تیرے پہلو میں دھڑکتی ہے
غیر ہے کوئی ، کسی اپنے کی تصویر نہیں

تجھ کو مقدم ہوئے کچھ نئے عہدِ وفا
مرے اجداد کے خوابوں کی تعبیر نہیں

کچھ تو ہے تم جس کو چھپاتے ہو
تخریب ہی ہو گئی کوئی تعمیر نہیں

وہ ہی مختار ہیں سو جو چاہے کریں
جرم ثابت نہیں ہے کوئی تعزیر نہیں

اُن سے عقیدت ہے رسمِ الفت کی قسم
وہ کچھ بھی کریں کوئی تقصیر نہیں

خودی بیچ کے اُن کی غلامی لی ہے
اور وہ کہتے ہیں جذبے میں تاثیر نہیں

باندھ رکھا ہیں ہمیں کچھ ایسے یاروں
پاؤں میں بظاہر تو کوئی زنجیر نہیں

ہائے! کیسا ہے مری قوم کا مقدر آصف
خاک میں خاک ہوئے اور تشہیر نہیں

(آصف احمد بھٹی)
 
Top