غزل (برائے اصلاح)

محترم اساتذہ کرام طویل غیر حاضری کے بعد ایک غزل پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں آپ سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ

مرے خدا تُو مسرت سے بھر دے گھر میرا
مصیبتوں کا سفر کردے مختصر میرا

گذر رہی ہے شبِ غم بڑی سہولت سے
زبانِ حال سمجھتا ہے چارہ گر میرا

جدائیاں ہیں کہ دن رات بڑھتی جاتی ہیں
مجھے گمان ہے معکوس ہے سفر میرا

کہا تھا اُس نے مجھے لوٹ کے وہ آئے گا
تمام عمر کھُلا ہی رہا ہے در میرا

کسی چراغ میں ہے روشنی نہیں باقی
طلوع جب سے ہوا ہے حسیں قمر میرا

جھُکا نہیں ہے کبھی اور جھُک نہ پائے گا
سوائے تیرے خدا عاجزی سے سر میرا

شراب سے ہے نہ ساقی سے واسطہ مجھ کو
نہ میکدے سے ہوا ہے کبھی گذر میرا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
خورشید بھائی! صرف دو تین مصرعوں میں کچھ تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے

کسی چرا غ میں ہے روشنی نہیں باقی، میں 'ہے' کی جگہ 'اب' بہتر رہے گا

جھُکا نہیں ہے کبھی اور جھُک نہ پائے گا
سوائے تیرے خدا عاجزی سے سر میرا
// اس شعر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، کہیں پہلے میں 'غیر کے آگے' یا 'کسی اور کے آگے' لائیں، عاجزی کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو رہی، 'اس جہاں میں' وغیرہ کیا جا سکتا ہے

دوبارہ دیکھنے پر 'معکوس' والا مصرع بھی رواں نہیں لگ رہا، قمر کا طلوع ہونا بھی کچھ شک پیدا کر رہا ہے، اس کو بھی دیکھ لیجیے گا کہ درست ہے کہ نہیں، باقی مجھے ٹھیک لگ رہی ہے غزل اور اچھی بھی ہے، ماشاء اللہ
 
خورشید بھائی! صرف دو تین مصرعوں میں کچھ تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے

کسی چرا غ میں ہے روشنی نہیں باقی، میں 'ہے' کی جگہ 'اب' بہتر رہے گا

جھُکا نہیں ہے کبھی اور جھُک نہ پائے گا
سوائے تیرے خدا عاجزی سے سر میرا
// اس شعر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، کہیں پہلے میں 'غیر کے آگے' یا 'کسی اور کے آگے' لائیں، عاجزی کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو رہی، 'اس جہاں میں' وغیرہ کیا جا سکتا ہے

دوبارہ دیکھنے پر 'معکوس' والا مصرع بھی رواں نہیں لگ رہا، قمر کا طلوع ہونا بھی کچھ شک پیدا کر رہا ہے، اس کو بھی دیکھ لیجیے گا کہ درست ہے کہ نہیں، باقی مجھے ٹھیک لگ رہی ہے غزل اور اچھی بھی ہے، ماشاء اللہ
محترم عظیم بھائی! حوصلہ افزئی پر شکر گذار ہوں-
چراغ والے مصرع میں ہے کی جگہ اب واقعی بہتر ہے
جھُکا نہیں ہے کبھی اور جھُک نہ پائے گا
سوائے تیرے خدا عاجزی سے سر میرا
سوائے خدا کے کہا تو اس کا مطلب باقی سب آگئے تو پھر بھی کیا غیر کے آگے یا کسی اور کے آگےلگانے کی ضرورت ہے؟۔ اور عاجزی اس لیے لگایا کہ تَعظِیماً کسی بڑے کے سامنے سر جھک سکتا ہے لیکن عاجزی صرف خدا کے لیے ہے۔ اسی طرح تمام جہانوں میں عاجزی سے سر جھکانا صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ تو پھر اس جہاں کے کیا معنی۔ اس لیے مزید راہنمائی کی ضرورت ہے۔
معکوس والے شعر میں اگر مزید واضح کردیں تو مہربانی ہوگی۔
 

الف عین

لائبریرین
’سر میرا ‘والے شعر میں واقعی عجز کلام ہے
کہا تھا اُس نے مجھے لوٹ کے وہ آئے گا
’لوٹ کر‘ کر دیں جو زیادہ فصیح ہے
معکوس پر بھی عظیم سے متفق ہوں، کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے
 
’سر میرا ‘والے شعر میں واقعی عجز کلام ہے
کہا تھا اُس نے مجھے لوٹ کے وہ آئے گا
’لوٹ کر‘ کر دیں جو زیادہ فصیح ہے
معکوس پر بھی عظیم سے متفق ہوں، کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے
دوبارہ دیکھنے پر 'معکوس' والا مصرع بھی رواں نہیں لگ رہا
اصلاح کے لیے آپ حضرات کا شکریہ
معکوس والا شعر دوبارہ کہا ہے ۔آپ کی رائے درکار ہے
میں جا رہا ہوں مسلسل ہی دور منزل سے
مجھے گمان ہے معکوس ہے سفر میرا

اور
کہا تھا اس نے مجھے لوٹ کر وہ آئے گا
درست کردیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح کے لیے آپ حضرات کا شکریہ
معکوس والا شعر دوبارہ کہا ہے ۔آپ کی رائے درکار ہے
میں جا رہا ہوں مسلسل ہی دور منزل سے
مجھے گمان ہے معکوس ہے سفر میرا

اور
کہا تھا اس نے مجھے لوٹ کر وہ آئے گا
درست کردیا ہے
اب کچھ بہتری محسوس ہو رہی ہے ۔اگرچہ معکوس لفظ کے استعمال پر ہی اعتراض ہو سکتا ہے۔ معکوس کو "اُلٹا" کے معنی لیا جائے تو مراد منزل سے واپسی کی طرف؟ لیکن اب بھی دوسرے مصرعے میں یہ بیان ہے کہ منزل تو ابھی پہنچے ہی نہیں!
 
اب کچھ بہتری محسوس ہو رہی ہے ۔اگرچہ معکوس لفظ کے استعمال پر ہی اعتراض ہو سکتا ہے۔ معکوس کو "اُلٹا" کے معنی لیا جائے تو مراد منزل سے واپسی کی طرف؟ لیکن اب بھی دوسرے مصرعے میں یہ بیان ہے کہ منزل تو ابھی پہنچے ہی نہیں!
بہت شکریہ سر!
دوبارہ کوششش کی ہے۔ مہربانی فرماکر رائے سے نوازیں-
رہا ہوں دور ہمیشہ ہی اپنی منزل سے
مجھے گمان ہے معکوس تھا سفر میرا​
 
Top