غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
ویسے وہ مری آنکھ کا تارا بھی نہیں ہے
یہ بھی ہے مگر سچ کہ پرایا بھی نہیں ہے

ایسا بھی نہیں عقل کی کرتے ہیں پرستش
دامن پہ مگر عشق کا دھبا بھی نہیں ہے

مایوسی کا عالم ہے کہ اللہ کی توبہ
دینے کے لیے دل کو دلاسا بھی نہیں ہے

دکھ درد کاطوفان ہے اور زیست کی کشتی
تا حدِ نظر کوئی کنارا بھی نہیں ہے

ہوں دور سخن گوئی سے فالحال، بجا ہے
چپ ہوں میں ترے نام پہ ، ایسا بھی نہیں ہے

دستور ہے اپنوں ہی سے کرتے ہیں شکایت
ہوں شکوہ بلب کیا تجھے پروا بھی نہیں ہے

تنہائی ہے کچھ یادیں ہیں بے خوابی ہے فائق!
یہ زخم ہیں وہ جن کا مداوا بھی نہیں ہے
 
Top