غزل برائے اصلاح

خسارے پر خسارا کررہے ہیں
محبت ہم دوبارہ کررہے ہیں

فراوانی غموں کی ہورہی ہے
زمین دل کشادہ کررہے ہیں

امید صبحِ وصل یار پر ہم
شب فرقت گوارا کررہے ہیں

انہیں طوفاں کا اندازہ ہو کیسے
جو ساحل سے نظارا کررہے ہیں

زمانے بھر سے ہیں ان کے مراسم
ہمیں سے بس کنارہ کررہے ہیں

کہاں باقی رہیں آنکھوں میں آنسو
لہو سے استفادہ کررہے ہیں

بہت ہے دوری منزل سے مضطر
سفر بھی پاپیادہ کررہے ہیں

نہ پوچھو حال اپنی زندگی کا
گزرنے تک گزارا کررہے ہیں

یہ دنیا ہے بڑی بے درد دنیا
یہاں تنویر ہم کیا کررہے ہیں

الف عین سر
 
خسارے پر خسارا کررہے ہیں
محبت ہم دوبارہ کررہے ہیں
دوبارہ کی و کا گرنا اچھا نہیں ...

فراوانی غموں کی ہورہی ہے
زمین دل کشادہ کررہے ہیں
ایک بار جب مطلع میں خسارہ اور دوبارہ قوافی آگئے تو اب لازم ہے کہ باقی اشعار میں بھی ایسے قوافی لائے جائیں جو "آرا“ پر ختم ہو رہے ہوں... جیسے سہارا، کنارا، پکارا، گزارا وغیرہ ... کشادہ اس زمین میں درست قافیہ نہیں ... قافیہ کی اس قید سے بچنے کا ایک حیلہ یہ ہے کہ مطلع میں قافیہ کو آزاد چھوڑ دیں ... یعنی قوافی میں محض" آ" کی آواز مشترک ہو.

کہاں باقی رہیں آنکھوں میں آنسو
لہو سے استفادہ کررہے ہیں
رہیں کے بجائے یہاں رہے کا محل ہے ... شعر اچھا ہے ویسے ...

بہت ہے دوری منزل سے مضطر
سفر بھی پاپیادہ کررہے ہیں
ہے یا ہیں؟ ... لیکن کون؟؟؟ کون مضطر ہے؟


نہ پوچھو حال اپنی زندگی کا
گزرنے تک گزارا کررہے ہیں
بہت خوب!


یہ دنیا ہے بڑی بے درد دنیا
یہاں تنویر ہم کیا کررہے ہیں
ییہاں بھی قافیہ کا مسئلہ ہے ...

ویسے قافیہ کی غلطی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اچھے اشعار ہیں ... لکھتے رہیے...
 
قافیہ کو آزاد کرنے کی کوشش کی ہے

خسارے پر خسارا کررہے ہیں
محبت کا اعادہ کررہے ہیں

فراوانی غموں کی ہورہی ہے
زمین دل کشادہ کررہے ہیں

امید صبحِ وصل یار پر ہم
شب فرقت گوارا کررہے ہیں

انہیں طوفاں کا اندازہ ہو کیسے
جو ساحل سے نظارا کررہے ہیں

زمانے بھر سے ہیں ان کے مراسم
ہمیں سے بس کنارہ کررہے ہیں

کہاں باقی رہے آنکھوں میں آنسو
لہو سے استفادہ کررہے ہیں

نہ پوچھو حال اپنی زندگی کا
گزرنے تک گزارا کررہے ہیں

یہ دنیا ہے بڑی بے درد دنیا
یہاں تنویر ہم کیا کررہے ہیں
 
دوبارہ کی و کا گرنا اچھا نہیں ...


ایک بار جب مطلع میں خسارہ اور دوبارہ قوافی آگئے تو اب لازم ہے کہ باقی اشعار میں بھی ایسے قوافی لائے جائیں جو "آرا“ پر ختم ہو رہے ہوں... جیسے سہارا، کنارا، پکارا، گزارا وغیرہ ... کشادہ اس زمین میں درست قافیہ نہیں ... قافیہ کی اس قید سے بچنے کا ایک حیلہ یہ ہے کہ مطلع میں قافیہ کو آزاد چھوڑ دیں ... یعنی قوافی میں محض" آ" کی آواز مشترک ہو.


رہیں کے بجائے یہاں رہے کا محل ہے ... شعر اچھا ہے ویسے ...


ہے یا ہیں؟ ... لیکن کون؟؟؟ کون مضطر ہے؟



بہت خوب!



ییہاں بھی قافیہ کا مسئلہ ہے ...

ویسے قافیہ کی غلطی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اچھے اشعار ہیں ... لکھتے رہیے...
خسارے پر خسارا کررہے ہیں
محبت کا اعادہ کررہے ہیں

فراوانی غموں کی ہورہی ہے
زمین دل کشادہ کررہے ہیں

امید صبحِ وصل یار پر ہم
شب فرقت گوارا کررہے ہیں

انہیں طوفاں کا اندازہ ہو کیسے
جو ساحل سے نظارا کررہے ہیں

زمانے بھر سے ہیں ان کے مراسم
ہمیں سے بس کنارہ کررہے ہیں

کہاں باقی رہے آنکھوں میں آنسو
لہو سے استفادہ کررہے ہیں

نہ پوچھو حال اپنی زندگی کا
گزرنے تک گزارا کررہے ہیں

یہ دنیا ہے بڑی بے درد دنیا
یہاں تنویر ہم کیا کررہے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اب بھی صرف ایک قافیہ مکمل آزاد ہے، باقی سارے آرا اور ادہ/ادا پر ختم ہونے والے ہیں، ایک دو آزاد قوافی والے مزید اشعار کا اضافہ کر دیں تو بہتر ہو جائے گی غزل، درست تو ہے
 
Top