غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
ملنے کو تو اس دور میں کیا کیا نہیں ملتا
اے دل! ترے جیسا کوئی تنہا نہیں ملتا

ہوتی بھی تو کیسے تری ہمراہی میسر
گلشن کے برابر کبھی صحرا نہیں ملتا

یادیں ہیں کسی کی کہ جو فرصت نہیں دیتی
تنہائی میں بھی خود کو میں تنہا نہیں ملتا

ہوتی ہے تری بزم میں دل جوئی سبھی کی
بس ایک مرے غم کا مداوا نہیں ملتا

سنسان ہوا کرتی ہے راہِ سفرِ عشق
لغزش پہ یہاں کوئی سہارا نہیں ملتا

یہ بھول ہے تیری کہ تُو بے چین کرے گی
جا تجھ سے میں اے خواہشِ دنیا! "نہیں ملتا"

بہتر تو یہی تھا کہ تمنا ہی نہ کرتے
اس دہر میں کچھ حسبِ تمنا نہیں ملتا

کیا خاک نبھاپائیں گے دنیا سے تعلق
رشتہ کوئی خود سے بھی ہمارا نہیں ملتا

احوال مرا پوچھنے کیوں آتے وہ فائق
اک پیاسے سے آکر کبھی دریا نہیں ملتا
 

الف عین

لائبریرین
مجھے یہ شعر اچھا نہیں لگا، پہلے مصرع میں ی کے اسقاط کی وجہ سے، اور دوسرے میں ردیف کے استعمال کی وجہ سے۔ یعنی شاید یہ کہنا تھا کہ صحرا اور گلشن ایک ہی مقام پر یا متصل نہیں ہوتے، لیکن ردیف کی وجہ سے کچھ عجیب بیانیہ ہو گیا
ہوتی بھی تو کیسے تری ہمراہی میسر
گلشن کے برابر کبھی صحرا نہیں ملتا
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
ہاں، اس میں واوین کی ضرورت نہیں
جا تجھ سے میں اے خواہشِ دنیا! "نہیں ملتا"
 

محمد فائق

محفلین
مجھے یہ شعر اچھا نہیں لگا، پہلے مصرع میں ی کے اسقاط کی وجہ سے، اور دوسرے میں ردیف کے استعمال کی وجہ سے۔ یعنی شاید یہ کہنا تھا کہ صحرا اور گلشن ایک ہی مقام پر یا متصل نہیں ہوتے، لیکن ردیف کی وجہ سے کچھ عجیب بیانیہ ہو گیا
ہوتی بھی تو کیسے تری ہمراہی میسر
گلشن کے برابر کبھی صحرا نہیں ملتا
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
ہاں، اس میں واوین کی ضرورت نہیں
جا تجھ سے میں اے خواہشِ دنیا! "نہیں ملتا"
رہنمائی کے لیے شکریہ سر

ویسے تو ترے چاہنے والے ہیں بہت سے
یہ بات الگ ہے کوئی ہم سا نہیں ملتا

یہ شعر ٹھیک ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے مگر
ویسے تو ترے چاہنے والے ہیں بہت سے
میں تنافر ہے
ویسے ہیں ترے چاہنے والے تو بہت سے
کر دو، درست ہو جائے گا
 
Top