غزل برائے اصلاح

فیضان قیصر

محفلین
میں کہیں جا رہا ہوں بس یوں ہی
خود کو بہلا رہا ہوں بس یوں ہی

میں حقیقت پسند ہوں لیکن
سچ کو جھٹلا رہا ہوں بس یوں ہی

کیا مجھے سب سے کچھ شکایت ہے؟
یا میں کترا رہا ہوں بس یوں ہی

کب میں پہنوں گا یہ نئے کپڑے؟
جو میں بنوا رہا ہوں بس یوں ہی

یا تو مشکل ہے زندگی کا سفر
یا میں گھبرا رہا ہوں بس یوں ہی

سچ تو یہ ہے کہ ایک مدت سے
میں جیے جارہا ہوں بس یوں ہی

بس یوں ہی سن لے حالِ دل فیضان
میں بھی بتلا رہا ہوں بس یوں ہی
 
آخری تدوین:
میں کہیں جا رہا ہوں بس یوں ہی
خود کو بہلا رہا ہوں بس یوں ہی

میں حقیقت پسند ہوں لیکن
سچ کو جھٹلا رہا ہوں بس یوں ہی

کیا مجھے سب سے کچھ شکایت ہے؟
یا میں کترا رہا ہوں بس یوں ہی

کب میں پہنوں گا یہ نئے کپڑے؟
جو میں بنوا رہا ہوں بس یوں ہی

یا تو مشکل ہے زندگی کا سفر
یا میں گھبرا رہا ہوں بس یوں ہی

سچ تو یہ ہے کہ ایک مدت سے
میں جیے جارہا ہوں بس یوں ہی

بس یوں ہی سن لے حالِ دل فیضان
میں بھی بتلا رہا ہوں بس یوں ہی

خوب
 
Top