غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
طرحی غزل
الف عین
عظیم

مرے دل سے نکل جا تو سن اے پیکانِ تنہائی
"لیا جاتا ہے مجھ سے بزم میں تاوانِ تنہائی"

اندھیری شب، جو میری آنکھ میں تارے چمکتے ہیں
کرامت ہے جدائی کی ہے یہ فیضانِ تنہائی

گھٹا چھائی ہے میرے دوست آ بیٹھیں ذرا باہم
یہ لمحہ اور یہ ساعت ہے نہیں شایانِ تنہائی

خوشی، امیّد کے بازار میں گھاٹا ہی گھاٹا ہے
ترقی کر رہی ہے تو صرف دکّانِ تنہائی

گنہ چھپ کر کروں کس جا الٰہ العالمیں میرا
مجھے ہر وقت دیکھے ہے نہیں امکانِ تنہائی

مجھے مطلب پرستوں سے اسی نے دور رکھا ہے
مرے سر پر بہت ہے دوستو احسانِ تنہائی

گلے ملتے ہیں ظاہر میں مگر دل دور ہوتے ہیں
ہمارے شہر میں آیا ہے یوں طوفانِ تنہائی

ہجومِ دوستاں میں دل نہیں لگتا مرا ہرگز
مجھےسودا ہوا ہے خوش ہوں میں دورانِ تنہائی

ہمارے گھر کے آنگن میں بہار آئی نہیں جب سے
انیس اس وقت سے ہے ہاتھ میں دامانِ تنہائی
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے بس دو ایک غلطیاں ہیں
یہ لمحہ اور یہ ساعت ہے نہیں شایانِ تنہائی
... وزن میں اس وقت آتا ہے جب 'اور یہ' کو 'اُر یَ' پڑھا جائے، میرا مشورہ ہے کہ اس کے آگے کے 'ہے' کو نکال دو، بغیر اس کے 'اور یہ' مکمل زیادہ رواں لگتا ہے

ترقی کر رہی ہے تو صرف دکّانِ تنہائی
.. صرف کا کیا تلفظ کر رہے ہو؟ یہاں صِرِف پڑھو تو بحر میں آتا ہے جو غلط ہے۔ اس کی بجائے فقط استعمال کرو

یہ مصرع مجھے درست نہیں لگتا
مجھےسودا ہوا ہے خوش ہوں میں دورانِ تنہائی
دوران کسی زمانے کے وقفے کے لیے تو ممکن ہے لیکن 'تنہائی کے دوران' نہیں کہا جاتا، اس شعر کو 'غزل بدر' کر دو

ہمارے گھر کے آنگن میں بہار آئی نہیں جب سے
انیس اس وقت سے ہے ہاتھ میں دامانِ تنہائی
.. اس شعر میں ایک تو میرے گھر کہنا بہتر ہو گا کہ صرف انیس ہی تو تنہائی کا دامن پکڑے ہوئے ہے!
دوسرے، کب سے بہار نہیں آئی؟ یا تو اس کی توضیح کی جائے یا اسے وقت کی قید سے آزاد کر دیا جائے
باقی اشعار درست ہیں
 

انیس جان

محفلین
میں سمجھ رہا تھا کہ "صرف" بھی "طرح" کی طرح دونوں صورتوں میں صحیح ہے

کسی کے ہاتھ خوشیوں کا، کسی کے ہاتھ یاروں کا
انیس آیا ہے میرے ہاتھ میں دامانِ تنہائی
استادِ محترم یہ مقطع دیکھیے گا
 
Top